Jump to content

شکار نامۂ اول

From Wikisource
شکار نامۂ اول
by میر تقی میر
314863شکار نامۂ اولمیر تقی میر

چلا آصف الدولہ بہر شکار
نہاد بیاباں سے اٹھا غبار
روانہ ہوئی فوج دریا کے رنگ
لگا کانپنے ڈر سے شیر و پلنگ
طیور آشیانوں سے جانے لگے
وحوش اپنی جانیں چھپانے لگے
سن آواز شیران نر ڈر گئے
پلنگ و نمر خوف سے مر گئے
جہاں ببر آیا نظر صید تھا
بیاباں اسی پہن سے قید تھا
گئے مست ہاتھی مکانوں کو چھوڑ
دیے پنجۂ شیر نلیوں سے توڑ
نہ دیکھا نہ ہم نے سنا یہ شکار
کہ بکری سا ہاتھی کو لیتے ہیں مار
پلنگان صحرا کے دل خوں کیے
نہنگان دریا ہوئے مرجیے
کہاں سہل مارے گئے نرہ شیر
لگے بکریوں کو پکڑتے بھی دیر
ہوئے لشکری جب کہ سرگرم گشت
مقید ہوئے مست فیلان دشت
گئے جانور دشت خالی رہے
بیابان جھاڑے گئے توکہے
عجب تر ہے یہ صید کرنے کا ڈھنگ
کہ چو رنگ ہاتھی ہوئے بے د رنگ
نہ چیتل نہ پاڑھا نہ ارنا نہ شیر
ہوئے گولیاں کھا کے یک لخت ڈھیر
درندوں کا پیدا نہ نام و نشاں
نہ شیر ژیان و نہ پیل دماں
کبھو فیل دشتی نہ جکڑے گئے
نہ یوں بھیڑ بکری سے پکڑے گئے
سنا جس طرف فیل دشتی کا میل
رواں فوج ادھر کو ہوئی سیل سیل
اگر ٹک بھی اٹکا تو مارا گیا
پڑے سینکڑوں پھاند چارا گیا
وگر سرکشی سے کی استادگی
تو پیش آئی اک طرفہ افتادگی
پہاڑ ایک ہاتھی مقابل ہوا
بزور آمد و شد کا حائل ہوا
جٹے دونوں وے دیو میدان میں
اٹھا شور محشر بیابان میں
جہاں دونوں فیلوں کی تھی سرزنی
شتر مرغ سے واں نہ ہو پر زنی
جو اس مار کھانے پہ اکڑا رہا
کئی روز رسوں سے جکڑا رہا
رہے کس طرح پھٹ گیا تھا جگر
موا دوپہر میں لہو موت کر
مگر سرکشی سے نہ اپنی ہٹا
نہ میدان میں ٹک دبا ٹک گھٹا
اشارہ ہوا اس کے چورنگ کا
سبھوں کو ارادہ ہوا جنگ کا
برسنے لگا مینھ تیروں کا زور
ہوا فیل باراں کا جنگل میں شور
لگی پڑنے بجلی سی تیغ سپاہ
پریشان ہو جیسے ابر سیاہ
نہایت وہ ہاتھی ہوا لخت لخت
گرا یوں کہ جیوں پارۂ کوہ سخت
رکھا لاکے لشکر میں اثناے راہ
سر اس کا کٹا جیسے برج سیاہ
رہے کہتے اس دن عجب سب ہے یہ
سر فیل ہے یا سر شب ہے یہ
اگر دیو ہیں سرگرانی کے ساتھ
نہ اس تیرگی و کلانی کے ساتھ
دماں خشم گیں جیسے آتش یہ تھا
مگر فیل سر دیو سرکش یہ تھا
گوزن اور ہرنوں کی کیا دیجے شرح
گئے شیر مارے سو کتوں کی طرح
گیا دشت در دشت شور شکار
ہوئے گرگ آہو کے اوپر سوار
ہرن جھانگیوں میں رہے گھومتے
کھپے فیل بیلوں ہی میں جھومتے
برابر رہے گور و شیر ژیاں
برابر تھا دونوں کو وسواس جاں
گئے پیشتر چھوڑ نخچیرگہ
شغالوں کی روباہ بازی تھی یہ
اس اوقات سے جوکہ بے ہوش تھے
بہیروبنہ کے وے خرگوش تھے
اگر ریچھ نکلا تو تھا سو بہ سو
بہت مضطرب تھا وہ آشفتہ مو
قلندر سپاہی پئے جاں ہوئے
لیے اس کو سر در گریباں ہوئے
علف آب گوں تیغ کا پھر ہوا
کہیں پاؤں اس کے کہیں سر ہوا
موئے اس طرح حضرت بوحمید
کہ جوں ہوتے ہیں گے بڑے سے پلید
گرے پشت سوے فلک خاک پر
اک انبوہ تھا جسم ناپاک پر
گئے لادنے فیل پر لشکری
یہی ذات تھی لائق برتری
کروں صید ماہی کا کیا میں بیاں
کہ فیلوں پہ تھے تودہ تودہ رواں
پڑے سینکڑوں دام تالاب میں
نہ چھوٹی تنک خاک اس آب میں
نہ تیتر نہ طاؤس صحرا کے بیچ
نہ ماہی نہ مرغابی دریا کے بیچ
رہے گوشت ہی پکتے ہر صبح و شام
جواں کھاگئے مرغ و ماہی تمام
ہوا حائل راہ بحر عمیق
کہ ہو وہم ساحل پہ جس کے غریق
قریب آکے اتری یہ خائف تھی فوج
کہ بے ڈول اٹھتی تھی ہر ایک موج
مہیب اور آلودۂ خاک و آب
بعینہ پھٹی آنکھ تھا ہر حباب
غضب لجہ خیزی بلاجوش پر
تلاطم قیامت لیے دوش پر
چلے بس تو کچھ کوئی چارہ کرے
مگر دیکھ ہی کر کنارہ کرے
تردد میں ہر اک کہ ہوں کیونکے پار
کنارے پہ سرگشتہ گرداب وار
رواں آب ایسی روانی کے ساتھ
کہ جوں رفتگی ہو جوانی کے ساتھ
لگے پاؤں چلنے جہاں شور تھا
کہ کم آب میں بھی بڑا زور تھا
تامل سے اقبال نواب دیکھ
توقف کیا پہلے تو آب دیکھ
پھر اس پار جاکر اشارہ کیا
کہ لشکر نے ووہیں گزارہ کیا
شباشب اترنے لگے لشکری
نہ جوش آب کا وہ نہ ویسی تری
وہ سوتا جگاتا تھا جس کا خطر
اٹھا شور سے فوج کے چونک کر
نشہ اس کے سر سے اتر سا گیا
چڑھائی سے لشکر کی ڈر سا گیا
کچھ اک ناویں لے کچھ شجر کاٹ کر
شتابی سے دریا کے تیں پاٹ کر
اترنے لگا لشکر بیکراں
کراں تا کراں تھی یہ محشر عیاں
سلامت ہوا پار سب ازدحام
رہے دنگ خضر علیہ السلام
شکار اس کنارے بھی تھا بیشتر
ہوئے صید یاں کے جگر ریش تر
گئے ارنے مارے سو مانند فیل
ہوا خون جنگل میں ان کا سبیل
رہے گور راتوں کے تیں جاگتے
گئے ببر کوسوں تلک بھاگتے
پکڑ لائے چیتے گوزن اور گور
عصا سے چلے راہ یاں مار و مور
بہت ہم نے دیکھے وزیر و شہاں
شکار ایسے دستور سے تھا کہاں
نمک خوار مجھ سے تو ہیں گے ہزار
پہ میرا بھی ہونا ہے یھاں یادگار
غرض میرؔ تا دور چرخ بلند
رہے آصف الدولہ اقبال مند
کرے اس کا اقبال ہر لحظہ کام
شکار اس کے دشمن رہیں صبح و شام
غزل میرؔ کوئی کہا چاہیے
ٹک اس بھی زمیں پر رہا چاہیے

غزل

ہم وحشیوں پہ کچھ ہو کاہے کو یار ہے تو
اے ترک صیدپیشہ کس کا شکار ہے تو

پہنچی قریب شاید نخچیرگاہ اس کی
جوں صید خوں گرفتہ دل بے قرار ہے تو

دل تجھ تلک رسائی مشکل ہے چشم تر سے
عسرالعبور کیسے دریا کے پار ہے تو

شہری ہیں اس کی آنکھیں کیا تجھ کو ان سے نسبت
اے آہوے بیاباں اچھا گنوار ہے تو

کیا صبح جلوہ گر ہو خوبی کے آگے تیری
اے گل دم تبسم باغ و بہار ہے تو

یھاں دو قدم بھی چلنا بن سر دیے نہ ہووے
اے راہ عشق کتنی مشکل گذار ہے تو

لیتا ہے تجھ سے عبرت جو کوئی دیکھتا ہے
کیا میرؔ اس گلی میں بے اعتبار ہے تو

باز قدم رنجہ فرمودن آصف الدولہ بہادر روز دیگر براے شکار

چلا پھر بھی نواب گردوں شکار
اسد باؤ کے گھوڑے پر ہو سوار
روانہ ہوئی فوج دریا مثال
نہنگوں کی اب کھینچی جاوے گی کھال
گیا شور تا آسمان بریں
ہوئی گرد افواج گردوں قریں
زمیں ہوگئی جاے خوف و خطر
فلک کو لگے دیکھنے شیرنر
چڑھا بسکہ دریاے فوج گراں
اتر ہاتھیوں کی گئیں مستیاں
دبی چپ لگا چلنے بھیڑوں کی چال
پریشاں ہے گرگ بغل زن کا حال
پلنگوں نے کہسار سے راہ لی
نہنگوں نے دریا کی جا تھاہ لی
بحیرے جو تھے دام سے چھا گئے
کشف نیچے ڈھالوں کے گھبرا گئے
درندے پرندے چرندے کھپے
گزندوں کے منھ گرد نیچے ڈھپے
تلف جانور ہیں جہاں کے تہاں
گوزن اور گور اور آہو کہاں
رہے گور یک شاخ و یک سو غزال
تزلزل میں ہیں کیا شجر کیا نہال
شغال اور روباہ و خرگوش سے
نہیں بحث کچھ یہ ہیں بے ہوش سے
کوئی شور سن سن کے گھبرائے ہے
کوئی کان ڈالے چلا جائے ہے
کوئی ڈھونڈتا ہے بیاباں میں جھاڑ
کوئی چاہے ہے پھاند جاؤں پہاڑ
کہ شاید یہ اودھر نہ ہو کل مکل
کوئی دن جیے اس بلا سے نکل
پھرے مضطرب ہو کے شیر غریں
کہ بیشوں میں تھی یا کماں یا کمیں
نکلتا ہے کفتار پر بے حواس
ہزبر جگرخوار سب ہیں اداس
کیا کام ڈرتے گئے پھٹ جگر
بن آئی ہی مر مر رہیں ہیں نمر
اگر خرس تھا مفتر و بدمعاش
لگا موش خانے کی کرنے تلاش
وگر ببر ہے پیش و پس ہے نگاہ
نہیں سوجھتی بے حواسی سے راہ
مبادا شکاری سگان رکاب
گریں آکے مجھ تک بھی پہنچیں شتاب
ہوا آب زہرہ وہ شیری گئی
جگر ڈر سے ہے خوں دلیری گئی
ہوئی صیدبندی کی جنگل میں دھوم
گرے فیل جیسے گھٹا آوے جھوم
بیاباں میں چھایا ہے کیا ابر مرگ
برستی ہے گولی بسان تگرگ
لڑائی نہیں ہوں جو مصروف جنگ
اڑیں رنجکیں اڑتے دشمن کے رنگ
جو آتا ہے پلٹن کو کچھ ولولہ
چلے ہے کوئی توپ ہے زلزلہ
اگر جاے تھی اس کی کوہ گراں
گیا شیر پھنکے بھی جاگہ سے یھاں
نہ دل مرد ہے ببر و گرم شتاب
دل شیر برفی بھی ڈر سے ہے آب
نہ رنجک کے اڑنے کا اچھا ہے طور
ہوا آن ہی میں زمانہ کچھ اور
ہوئی گرم آتش زنی سے ہوا
رکھا آب میں جا کے لگ لگ نے پا
محیط آب گیروں کے تھے مردکار
موئے مالک الحزن چندیں ہزار
بہت دام پانی کی جانب جھکے
کھڑے رہ گئے رود کیا کیا رکے
ٹھٹک سونس گھڑیال رہ رہ گئے
مگرمچھ نہ جانے کدھر بہہ گئے
نہ قشقل نہ سلی نہ سرخاب ہے
تمام ان کے لوہو سے سرخ آب ہے
عجب روغن قاز ملتے تھے یار
کہ قازوں کو لیتے ہوا میں سے مار
منگاتے تھے بطخ کی چربی ظریف
سو وہ چربی اب پھینک دیں ہیں حریف
ہوئے کتنے اقسام ماہی شکار
نہ آوے قسم کھائے بن اعتبار
مگر مرگ ماہی تھی جالوں کے بیچ
کہ یوں مچھلیاں سب نکالیں الیچ
نہ ارنب ہے جنگل میں نے سوسمار
کوئی بدوی کیا کھاوے پروردگار
کلنگوں کی الٹی گئی صف کی صف
ہوئے بیچ میں قرقرے بھی تلف
نہ سبزے گئے سبزہ کھا کھا کے چیت
بزے ویسے ہی آئے کھیتوں میں کھیت
بٹیر اور تیتر کا ہے کیا شمار
کہ باز آگئے جرے کرتے شکار
ہوا زرد سبزک بہت دل میں ڈر
نمدمو ہوا گرد سے شانہ سر
خطرناک تھا دشت کیا کہیے مور
دبا یوں پھرے جیسے دبتا ہے چور
نہ پاڑھا نہ نیلا نہ چیتل کوئی
بنوں میں جو دوں تھی گئی جل کوی
کوئی میرؔ صاحب غزل یاں کہو
پر ایسی کہ ویسی کسی سے نہ ہو

غزل

کیا کشت و خوں پہ ان دنوں میلان یار ہے
ہر جاے پوچھتا ہے کہ یاں کچھ شکار ہے

جاتا ہے اس کشندے کی جانب چلا ہوا
صید ازل رسیدہ ہے دل بے قرار ہے

آنکھیں جو میری باز ہیں جوں صید بسملی
اس ترک صیدبند کا یہ انتظار ہے

عزت جو اس گلی میں ہے اپنی نہ پوچھیے
جب جایئے تو خشم ہے گالی ہے مار ہے

جانیں چلی گئیں ہیں بہت قلب گاہ سے
تو رہ کے جا کہ راہ ابھی پرغبار ہے

ہے زلف و روے یار سے ہر لحظہ بحث یھاں
یہ وجہ ہے کہ شعر مرا پیچدار ہے

کم اختلاطی کا ہے گلہ یار سے عبث
کس کشتۂ وفا سے بہت اس کو پیار ہے

گل گل شگفتگی ہے ترے چہرے سے عیاں
کچھ آج میری جان قیامت بہار ہے

کیا میرؔ تم کو گریۂ شب سے ہے گفتگو
طوفان میری پلکوں کا سردرکنار ہے

نشیب و فراز بیاباں کو سن
جو ذی ہوش ہیں وے تو ہوتے ہیں سن
چڑھو آسماں پر جو آوے چڑھاؤ
پھر اترو تو تحت الثریٰ ہی کو جاؤ
جو اس میں کہیں ہووے لغزش تو خیر
کہ درپیش ہے اور عالم کی سیر
زمیں ضیق ازبس ہوئی یک بہ یک
نہ پھیلا سکا پاؤں گزپا تنک
ملے پر سے پر تھے ہوا میں کلنگ
کہ چلنے لگے یاں سے تیر و تفنگ
قیامت تھی آفت تھی ہر ایک چوٹ
لگے جس کے پھرتا وہیں لوٹ پوٹ
ہوئے خون اس جمع کے بے درنگ
ہوا کا ہوا اور اک دم میں رنگ
نہ پر تھا نہ پرزا نہ بازو نہ پا
کنھوں نے بھی پوچھا نہ یوں تھا یہ کیا
نہ زردی کو دیکھا نہ پایا کبود
نکالا ہے لوگوں نے پانی سے دود
سپہ کی بلا ترک تازی رہی
نہ سارس کی وہ سرفرازی رہی
کماں دار مردم سے چارہ گیا
کسو کھیت پر مفت مارا گیا
نہ جو فیل دشتی کی مستی گئی
وہیں مٹ گیا اس کی ہستی گئی
سنانوں کی نوکوں پہ پھر بٹ گیا
وہ کوہ گراں سنگ سب پھٹ گیا
بہت جانور چھوڑ آکھر گئے
لگی دوں بہت جل گئے مر گئے
اگر بن ہے گویا بنا ہے اسے
کرے قصد واں کا تو کیوں کر گھسے
مگر زور سے کچھ نکلتا ہے کام
بہت رنج کھینچے سے چلتا ہے کام
خریدار دستار سرخار بن
زمیں پر رکھو پاؤں کانٹوں کو چن
کئی گام یوں راہ چلنا پڑے
پھر اس دامگہ سے نکلنا پڑے
تو آگے بیابان پرخار ہے
کہیں جھاڑ بوٹا کہیں غار ہے
اگر اس میں پانی نظر پڑ گیا
کنارے پہ اس کے یہ چڑھ کر گیا
ہوا حال اپنا پریشاں بہت
پھرے مضطرب اور حیراں بہت
ترائی جو واں سے گذرنا ہوا
کہاروں کے سر چڑھ اترنا ہوا
بیابان وحشت اثر پرخطر
یہی ڈر ہے ڈر کیا ادھر کیا ادھر
جہاں تک نظر جائے سوکھی ہے کانس
اگر سبزہ بھی تھا تو تھوہڑ کا بانس
کہیں دل رکے بند ہوجائے دم
لکھوں کیا نیستاں ہی تھے یک قلم
چلے باؤ دن کو تو ہو سائیں سائیں
پڑے رات تو پھر کرے بھائیں بھائیں
نہ سبزہ نہ کھیتی نہ آب رواں
کوئی شیر غراں کہ پیل دماں
سو وہ شیر مارا گیا مثل سگ
وہ ہاتھی پکڑ لائے بے تاز و تگ
کوئی دشت ایسا کہ تھا سبزہ زار
ہوا دلکش و جرگہ جرگہ شکار
اگر آہوگیری کا ہوتا نہ عیب
تو وہ ہم بھی رکھ لیتے بے شک و ریب
مسطح زمیں میل در میل تھی
نہ دریاچہ تھا کوئی نے جھیل تھی
اگر آگیا رودخانہ کہیں
نہ دلخواہ تھا واں سے جانا کہیں
بڑا لطف تھا سیر میں گشت میں
نہ تھی دخت رز حیف اس دشت میں
ہوا اک جبل سامنے سے سیاہ
اسی کی طرف کو پڑی سب کی راہ
عجب لطف کا تھا وہ کوہ گراں
کہ صد چشمہ کا اس میں پانی رواں
شجر سبز و پتھر بہت صاف تھے
سبھی جیسے الماس شفاف تھے
ہوا ایک ابر اس جبل سے بلند
ہوا پر بچھے اس کے یزدی پرند
پہر دن سے بارش لگی ہونے زور
رہا ساری وہ رات طوفاں کا شور
ہوئے خیمے پانی کے اوپر حباب
سب اسباب لوگوں کا تھا زیر آب
نہ پوچھ اور اسباب مردم کا حال
نہ چادر رہی خشک نے کوئی پال
قنات اور تنبو بسر سب گئے
کھڑے تھے جو کندے اتر سب گئے
بھرا پانی لشکر میں پھیلا ہوا
اگر فرش بستر تھا تھیلا ہوا
ہوا سرد ازبس ہوئی ایک بار
کلیجوں کے ہوتی تھی برچھی سی پار
پھرے باد سے لوگ منھ ڈھانپتے
جگر چھاتیوں میں رہے کانپتے
رہا ایسی سردی میں کیدھر شکار
ہوئے لوگ خیموں کے اندر شکار
بہت پیر جب جی کو تجنے لگے
جوانوں کے بھی دانت بجنے لگے
تہ میغ خورشید پنہاں ہوا
نہ دیکھا مگر روے جاناں ہوا
بہت اسپ و اشتر موئے پاؤں پیٹ
نکالا انھیں خیمہ گہ سے گھسیٹ
غزل میرؔ یاں کوئی موزوں کرو
تامل کرو دل جگر خوں کرو

غزل

وہ دل شکار آن جو نکلا شکار کو
انداز یک نگاہ سے مارا ہزار کو

چلنا پڑے ہے رکھ کے قدم تیغ تیز پر
کس ڈھب سے کاٹیں اس رہ مشکل گذار کو

اڑنے لگے ہے باد میں تو جاں گزا ہے پھر
خجلت ہی اس کی زلف سے ہے تیر مار کو

سو بار منھ چڑھاتے ہو کچھ بولتے نہیں
یہ بات کیا چڑھو ہو کہے اپنی بار کو

آتا نہیں نظر کہ حصول امید ہو
کیا تھام تھام رکھیے دل بے قرار کو

جیتے رہے تو اس سے ہم آغوش ہوں گے ہم
لبریز گل سے دیکھیں گے جیب و کنار کو

کیا سمجھے خوبی میری خراش جبیں کی تو
اس کام کو دکھا کسی استاد کار کو

ایسے ستم کیے کہ گیا جی سے میں ندان
ٹک منصفی سے دیکھو پھر انصاف یار کو

بولا کہ مجھ کو کرتی ہے بدنام گور میرؔ
ہے خوب اگر مٹاوے کوئی اس مزار کو

کسو بن میں ارنوں کا پاکر نشاں
لگی جانے ہر صبح فوج گراں
مقابل ہوا آکے جوں فیل مست
اگر فیل تھا تو ہوا اس کا پست
غضب ہے خدا کا کوئی اس کے چوٹ
اگر اسپ اشتر ہے تو لوٹ پوٹ
نہ خوک اس کی جنگل میں گھیرے ہے راہ
نہ شیر اس کی جانب کرے ہے نگاہ
بڑی دیر جنگل میں دوڑا پھرا
لیا زیر بندوق آخر گرا
لگی بہنے شمشیر جدول شعار
لگے قیمہ کرنے جوانان کار
بہت ایسے مارے بہت کٹ گئے
نظر کرکے ہیئت جگر پھٹ گئے
کسو بن میں رونق نہ پائی گئی
پھر اس پر جو ایسی اوائی گئی
جگر واں کے شیروں کے پھٹ پھٹ گئے
بیابان سے کرگدن ہٹ گئے
نہ فیلوں میں سدھ بدھ نہ شیروں میں زور
نہ چیتوں کو جاگہ نہ گوروں کو گور
نہ بوٹی کو چھوڑا نہ باقی ہے جھاڑ
پہاڑوں کو راہوں سے ڈالا اکھاڑ
پرندہ جہاں پر نہ سکتا تھا مار
ہوا رہکلے توپ کا واں گذار
نکل شیر جنگل سے حیراں ہوئے
اڑاہے جو تھے صاف میداں ہوئے
جہاں چلتے پھرتے نہ تھے مار و مور
چلے پہروں واں تیر بندوق زور
شغال اور خرگوش و ہم روبہاں
شکاری سگوں نے کیے نوش جاں
ہوا پر جو تھے مرغ پرواز میں
گرے سینکڑوں ایک آواز میں
بہت جانور کھا گئے کر کباب
ہوئے آشیانے ہزاروں خراب
حواصل تھا کیا جو کہوں تھا کہیں
کہ تعداد کشتوں کی پاتے نہیں
بہت مضطرب جھانگیوں میں پھرے
سلامت نہ آخر گئے برسرے
انھوں ہی میں سیمرغ بھی تھا مگر
کہ پر مارتا ہی نہیں کوہ پر
نہیں فیل مرغ اور شتر مرغ اب
کہ بعضوں کے طعموں کے کام آئے سب
کسو بن میں تھے نیستاں اور کانس
چلے راہ واں لے نہ سکتے تھے سانس
برس مینھ دو دن میں کھل بھی گیا
ولیکن ہے کہرا لطیفہ نیا
کہ اندھیر تھا جیسے ظاہر ہو دود
ہوئے ہونٹھ سردی سے سب کے کبود
بلا دھوم سے کوئی گھبرا پڑے
جنھیں دیکھو وے کانپتے ہیں کھڑے
ہوا سرد ہوکر گئی جان مار
اٹھایا بڑا لطف سیر و شکار
دل اس دود تیرہ سے گھبرا گیا
کہیں آگ دیکھی تو جی آگیا
یہی چال تھی ایک دو چار کوس
ہوا ٹھنڈی ٹھنڈی پڑی ایسی اوس
کسو کوہ کے پاس نکلی جو راہ
گئی کوہ کی تیغ تک کم نگاہ
بلندی تھی اس کوہ کی تا فلک
نگہ جاتے ہی جاتے جاتی تھی تھک
نہ اس رنگ سے صید ہوں گے کہیں
ہوئی خون کے رنگ رنگیں زمیں
جہاں دام اور دد کی تھی بود و باش
لگے چوک لوگوں نے کی واں معاش
ہوا ایک جنگل میں آکر گذر
کسو کو نہ تھی واں کسو کی خبر
تراکم قیامت تھا اشجار کا
ستم پھر ہواے ستمگار کا
کہ اس مرتبہ بارد و سرد تھی
ہوئے سن مگر برف پرورد تھی
کوئی خاربن حائل رہ ہوا
پھٹے پیرہن ہوش سب تہ ہوا
درختان بے برگ و بر بدنما
نہ اک شاخ پر مرغ رنگیں نوا
بہت سر ملائے بہم تھے شجر
ولیکن نہ پایا کنھوں نے ثمر
نہ قمری ہوئی نالہ پرداز ٹک
نہ بلبل کی واں آئی آواز ٹک
یہی کل مکل تھی یہی کشمکش
پھرے مارتے سر کو دیوانہ وش
درختوں کے انبوہ سے رک گئے
چلے اتنے جھک کے کہ ہم جھک گئے
اگر شاخ جاگہ سے اپنی ہلی
تو کانٹے سی ہم رہرواں پر چلی
جو اس دشت میں تھا کوئی صید بھی
سو آگے ہی وہ ہوگیا قید بھی
رہائی ہی مقصود تھی واں سے یار
پڑی اپنی سب کو کہاں کا شکار
کہوں کیا کہ یکسر تھے اس میں قلم
چلے روسیہ اور سو سو بہم
نہ چھوٹی تھی جاگہ قدم وار بھی
نہ اٹھتا تھا اک نالۂ زار بھی
کہ دل کو کسو کے لگے جوں خدنگ
ہوئے ایسے سنسان جنگل میں تنگ
نکلنا ہوا کھینچ کر یہ عذاب
ملا بیشتر ایک تہ دار آب
رواں تھا کسو کی طرف تند و تیز
ہوا اس کے چلنے کی تھی پیش خیز
حباب اس کا چشمک زناں موج پر
کہ یوں گرم جاتے ہیں اہل نظر
طلبگار کرتے نہیں سادگی
نہ ہو جوں گہر ایسی استادگی
کنارے پہ اس کے اترنا ہوا
دوبالا ہوئی ٹھنڈ مرنا ہوا
نہ رکھتے تھے جوں رند مفلس لباس
نہ ان سے ہوا اپنے جامے کا پاس
غزل کہنے کی یہ بھی جا خوب ہے
جو اچھی ہو موزوں تو کیا خوب ہے

غزل

حیف اس شکارپیشہ کو ہم سے خبر نہیں
ہم ہیں شکار خستہ ہمارے جگر نہیں

ہم خاک منھ سے مل کے پھرے جیسے آرسی
افسوس ہے کہ روے دل یار ادھر نہیں

آنکھیں نکال اس کے قدم کے تلے رکھیں
تو بھی ہمارے حال پہ اس کو نظر نہیں

کیا کیجے جو نہ کیجیے انداز دام کا
گلزار کے تو قابل پرواز پر نہیں

نکلی پڑے ہے میان سے کاہے کو ہر گھڑی
لاگ اس کی تیغ تیز کو ہم سے اگر نہیں

سر رکھ کے اس کی تیغ تلے مرچکو شتاب
یاں پاؤں پیٹ پیٹ کے مرنا ہنر نہیں

آنکھیں ہیں اس کی راہ پہ جوں نقش پا ہزار
پر میرؔ اس کو کچھ سر سیر و سفر نہیں

لیے کتنے روزوں میں نانک مٹے
جواں اس سے آگے بھی جاکر ڈٹے
نہنگ اس طرف کے بحاروں کے سن
پلنگ ان بنوں سے چلے سر کو دھن
غریب اشتلم جنگلوں میں رہا
نہ جھانکا ادھر کوہ سے اژدہا
گیا سینکڑوں کوس شور شکار
رہے ٹھور حیوان یکجا ہزار
چلا باز چھاتی کو کھولے جہاں
پرندہ رہا وہم کا بے گماں
زمیں گرد جرہ ہے کیا تیز بال
رکھا جن نے اٹھتے ہی مرغ خیال
فلک سیر شاہیں کی پرواز دیکھ
لگے جوں نگہ جا کے انداز دیکھ
نہ جھاڑا گیا نسر طائر سے سر
گھٹا کرگس چرخ چھوٹا نہ پر
رواں جس گھڑی ہوتی فوج گراں
بہیروبنہ ہر طرف سے عیاں
زمیں پر قدم کوئی کیوں کر دھرے
بیاباں فراخی سے تنگی کرے
کوئی شعبہ آیا اگر درمیاں
ہوا اور لشکر سے محشر عیاں
بلندی و پستی تھی اتنی کڈھب
کہ گاہے زمیں گہ فلک پر تھے سب
کوئی نالا کھولا اگر آگیا
تو اپنا کیا پھر کوئی پاگیا
گرے یاں رہے یاں یہی چال تھی
جہاں در جہاں خلق پامال تھی
ہوا دن تو یوں کھینچتے رنج شام
گئی رات چوروں کے ڈر میں تمام
کہے ہے کوئی کون آتا ہے یہ
پکارے کوئی کون جاتا ہے یہ
لگے آنکھ کپڑوں کے تیں زور ہو
پھر آرام سے رات کو سو رہو
ہوا خیمہ گہ دامن کوہ سب
رہا آکے نواب واں تین شب
قریب ایک مٹیاپہاڑی تھی واں
لگا اس سے کم کم تھا آب رواں
پہاڑی کہ تودہ کہوں خاک کا
کہ انبار تھا خار و خاشاک کا
محاذی تھا اس کوہ کے ایک دشت
کہ دشوار تھا اس میں آدم کا گشت
ہوا بد بہت اور پانی لگے
قدم راہ چلتے ہوئے ڈگمگے
چلے باؤ تو ایک موحش ہے شور
رکھے پاؤں دامن کو کھینچے بہ زور
فقط خاربن کیا کپڑپھاڑ تھا
کہ بوٹا بھی واں جھاڑجھنکاڑ تھا
چلو ہی چلو ہے یہ چلتے نہیں
کہ اشجار آگے سے ٹلتے نہیں
نہ ٹوٹیں نہ سرکیں نہ کاٹے کٹیں
مگر پچھلے پاؤں ہی رہ رہ ہٹیں
کہیں ہاتھی آیا ہے بھڑکا ہے اونٹ
کھڑے لوگ پیتے ہیں لوہو کے گھونٹ
کہیں ہیں گے انفار سرگرم جنگ
کرے ٹٹو پرتل کا عرصہ ہے تنگ
قیامت نمودار ہر ہر قدم
چلے کوئی کیا رکھ کے سر بر قدم
کہیں بچ کے نکلے کہیں جھک چلے
کہیں مضطرب تھے کہیں رک چلے
اسی طور منزل کو کر قطع راہ
پہنچتے رہے ہم بحال تباہ
شجر جمع تھے کچھ تہ کوہ بھی
فرود آیا اس جا یہ انبوہ بھی
زمیں اونچی نیچی خشونت بہت
اسی سے تھی واں کم سکونت بہت
ولیکن وہی خاک زشت و پلشت
ہوئی بود آدم سے رشک بہشت
ہوئی بیلچوں سے برابر زمیں
چمن سے بھی شاداب وہ سرزمیں
وہ پانی جو چلتا نہ تھا ڈھنگ سے
کہ تھا رہ گرا سرزناں سنگ سے
صفا اور خوبی میں کچھ بڑھ گیا
کئی ہاتھ مقدار سے چڑھ گیا
غزل اس زمیں پر بھی کہنی ہے میرؔ
دل اپنا ہے لطف سخن کا اسیر

غزل

وہ کماں ابرو اگر در پے ہوا ہے میرؔ کے
ترکش ان پلکوں کا ہے بالاے ترکش تیر کے

یوں تو کہتا ہے گلے کا تو مرے تعویذ ہے
پر نہیں آثار ظاہر یار کی تسخیر کے

میں بھی زنجیری رہا ہوں دیر گلشن کے قریب
پہنچے ہوں گے دور تک نالے مری زنجیر کے

خون ہی دست حنائی سے کیا کرتے ہو تم
لو کبھو ٹک ہاتھ میں دل کو کسو دل گیر کے

بندہ و صاحب میں نسبت ہے ولے نازک بہت
معترف رہتے ہیں عاشق اپنی ہی تقصیر کے

اور بھی وہ رشک خور کچھ اب خنک ملنے لگا
معتقد ہم کیا ہوں آہ صبح کی تاثیر کے

روے دلکش وہ خدا جانے کہ کس سے کھنچ گیا
میرؔ ہم عاشق رہے ہیں ایسی ہی تصویر کے

پہاڑی سے لشکر چلا سوے کوہ
چلے بس تو کریے سیہ روے کوہ
پڑی وادی سوختہ بیچ میں
کہیں آب میں تھے کہیں کیچ میں
نیستان سے ہے خرابہ کڈھنگ
پٹیلے سے عرصہ نہایت ہے تنگ
شجر جنگل ایسے تھے انبوہ سے
کہ ان میں سے جانا ہو اندوہ سے
کہیں بید کے برگ خنجرگزار
کہیں پا نہ رکھنے دیں سرتیز خار
تنک دو درختوں کے اودھر ہوئے
نیستان پھرتے ہی پھرتے موئے
اگر بید آئے تو بن بیدباف
نہ آئے نظر دور تک راہ صاف
اگر بانس تھے واں تو تھے دشت دشت
کہ دشوار تھا دو قدم کا بھی گشت
ہمیں چار نالے اترنے پڑے
کنارے پہ دو دو گھڑی تھے کھڑے
رہا ہر قدم گرنے ہی کا خطر
چلے دو قدم راہ پائی اگر
بہت لوگ دشت قلم کو گئے
بہت اسپ و اشتر عدم کو گئے
لگی ہاتھ فیلان دشتی کی راہ
ولے ڈر نہ ہو فیل کوئی سیاہ
نہ ہاتھی ملا کوئی بارے نہ شیر
ہوئی خیر گو طے ہوئی راہ دیر
شجر سرکشیدہ بہت کیا کہوں
جو دیکھوں تو پگڑی سنبھالے رہوں
چنار ان درختوں کے تھے پائمال
سفیدار رکھتے تھے حکم نہال
اگر کوئی دریاچہ آتا ہے بیچ
تو لوگوں کے روندوں سے ہوتا ہے کیچ
تل کوہ رفعت نمودار ہو
گیا آمد و شد میں ہموار ہو
کوئی گل زمیں ایسی آئی نظر
کہ عالم نے اودھر لگائی نظر
کہیں سبزۂ تر سے جی جا لگے
کہیں سرسوں پھولے دلوں کو ٹھگے
نہ تھا پر گل زرد دامان کوہ
یہی رنگ تھا تا گریبان کوہ
فضا دلکشا آب یکسر صفا
شجر خوش نما نرم نرمک ہوا
چکارے بہت مارے کہسار میں
دو رستہ بکا گوشت بازار میں
یہ انبوہ اشجار تا شش کروہ
پھر آگے بیاباں وہ ہے اور کوہ
کناروں میں اس کے کہیں کوئی کھیت
وگرنہ یہی سنگ بے رتبہ ریت
نہ سبزہ کہیں تھا نہ آب رواں
نہ دامن میں اس کے چکارا دواں
دکھائی نہ دیتا تھا خوش قد نہال
سیاہی پکڑتے تھے چشم غزال
وہی جنگلہ دوطرف بدنمود
مقام اس طرح کے بھی ہیں یادبود
نہ پھولی تھی سرسوں نہ کچھ تھی بہار
نہ ظاہر میں اس کے کہیں لالہ زار
نہ چشمک زناں دور نزدیک پھول
نہ نرمی سے آتی تھی باد قبول
چلے باد ایسے کہ جھکڑ رہے
ہوا اور پانی میں پھکڑ رہے
ادھر باد کا شور ادھر آب کا
شب و روز مذکور کیا خواب کا
ادھر کے تئیں ایک تھا آبشار
وہ البتہ شایان سیر و شکار
وہیں ایک دم تھا دلوں کا لگاؤ
اڑانے نہ دے جو حواسوں کو باؤ
سو اپنے تئیں تو نہ تھا کچھ دماغ
کہ حال اپنا جیسا تھا بجھتا چراغ
بہت شعبۂ کوہ مشہور تھا
زبانوں پہ لوگوں کے مذکور تھا
قدم رکھ جو نواب وھاں تک گیا
سر اس شعبہ کا آسماں تک گیا
کڈھب وہ جگہ سیرگہ ہوگئی
حضور اس کے فردوس تہ ہوگئی
ہوا خیمہ استادہ ایسی جگہ
کہ آنے لگی دیر واں سے نگہ
رواں دوطرف اس کے ایک آب کم
کہ دل کا لیے جائے سب زنگ غم
جہاں تک نظر کیجے مدنظر
ہوا موج زن کوہ کے تا کمر
نظر والوں کے جی بھی ڈھلنے لگے
گرفتہ دل اس جاے کھلنے لگے
وہ پانی چلا واں سے دریا ہوا
رواں گرم تر سوے صحرا ہوا
بہا دامن کوہ میں سنگ پر
کیا سنگ ریزوں کو بھی رنگ پر
کہ لوگ ان کو ہاتھوں میں رکھنے لگے
جواہر کے رنگوں پرکھنے لگے
کراڑوں کا کیا عظم کیجے بیاں
برابر کھڑے تھے دو کوہ گراں
انھیں میں سے تھی راہ اس آب کی
وہیں بھیڑ رہتی تھی احباب کی
ہوئے دامن کوہ میں کچھ مقام
سفر کی بھی مدت ہو شاید تمام
کوئی روز گھاٹی کی بھی سیر ہے
سبھوں کی ہے معلوم پھر خیر ہے
جو اس میں کسو شیر کا دیں نشاں
نظر آئے یا کوئی پیل دماں
تو اور ایک دو دن کی ہوتی ہے دیر
وہ ہاتھی بندھے کہیے گا یا وہ شیر
شکار ایسا دیکھا ہے اس بار کا
کہ جھاڑا ہوا دشت و کہسار کا
کوئی دیکھے کب تک پہاڑ اور جھاڑ
ٹلے چھاتی پر سے کہیں یہ پہاڑ
غرض ہے وزیر جہاں ارجمند
رئیس کلاں کار عالم پسند
در اس کا ہے باب سجود سراں
رہیں حکم کش اس کے زور آوراں
سدا وہ رہے یوں ہی دشمن شکار
جہاں میں سخن ہے مرا یادگار
بہانے نہ کر میرؔ اب شاخ شاخ
غزل کہہ زمیں گوکہ ہے سنگلاخ

غزل

نہیں خوں بستگی سے چشم تر بند
جراحت نے کیے ہیں چشم پر بند

گیا ہے وہ سو دل کھلتا نہیں ہے
پڑا ہے ایک مدت سے یہ گھر بند

کریں ہیں شوق گل خوں دل میں ناچار
اسیران شکستہ بال و پربند

گئے دن ٹکٹکی کے باندھنے کے
اب آنکھیں رہتی ہیں دو دو پہر بند

بہت ہے یار کا کم بولنا بھی
نہیں چنداں ہم ان باتوں کے در بند

سبھوں سے آرسی کے مثل وا ہو
کسو کے منھ پہ دروازہ نہ کر بند

ہمارے ہاتھ خنجر سے کرو قطع
نہ کھلوایا کبھو اس کا کمربند

رکے ہے یار آنکھیں ہی دکھا کر
ہم اس کے ان دنوں میں ہیں نظربند

نہ خط آتا ہے اودھر سے نہ قاصد
لکھوں کیا مدتوں سے ہے خبر بند

غزل کا قافیہ تغئیر کر میرؔ
ہنر کچھ اس زمیں میں میرؔ کر بند

غزل

جگرخوں کن ہیں خوبان حنابند
دل ان کے دست رنگیں کا ہے پابند

گرہ بند قبا میں دے ہمیں دیکھ
ہوا کیا آہ باغ دلکشا بند

رکھ آہ سرد ہی سے گرم جوشی
رکے ہے دل جو ہوتی ہے ہوا بند

ہمیں سے کیا وہ جادوگر نہ بولے
کسو دشمن نے اس کا منھ کیا بند

نہیں تھمتا ہے اب پلکوں سے رونا
بہت خاشاک سے دریا رہا بند

ہمیں منظور ہر صورت میں ہے دید
کھلی ہو چشم جوں آئینہ یا بند

نہیں کام آتی اتنی تیزگامی
سمند عمر ہوتا کاش جا بند

زبردستوں کی کشتی ہوگئی پاک
نکالا عشق زورآور نے کیا بند

یہی انداز باندھے ہیں یہی ناز
قیامت میرؔ صاحب ہیں ادابند


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.