شکوہ نہیں کسی کی ملاقات کا مجھے
Appearance
شکوہ نہیں کسی کی ملاقات کا مجھے
تم جانتے ہو وہم ہے جس بات کا مجھے
جانا کہ بوئے غیر یہ پہچان جائے گا
باسی نہ اس نے ہار دیا رات کا مجھے
مل کر تمام بھید کہوں گا رقیب سے
آتا ہے خوب توڑ تری گھات کا مجھے
ڈرنا کسی کا اور وہ بجلی کا کوندنا
موسم بہت پسند ہے برسات کا مجھے
آخر وہاں رقیب نے نقشہ جما لیا
اے داغؔ خوف تھا اسی بد ذات کا مجھے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |