Jump to content

شکوۂ درد جگر اے مہرباں کیوں کر کریں

From Wikisource
شکوۂ درد جگر اے مہرباں کیوں کر کریں
by یاس یگانہ چنگیزی
318455شکوۂ درد جگر اے مہرباں کیوں کر کریںیاس یگانہ چنگیزی

شکوۂ درد جگر اے مہرباں کیوں کر کریں
آپ سن کیوں کر سکیں اور ہم بیاں کیوں کر کریں

اپنی بیتی پھر سنائیں گے کبھی اے مہرباں
شب کی شب میں ختم ساری داستاں کیوں کر کریں

سیکڑوں ہی فتنۂ خوابیدہ جاگ اٹھیں گے پھر
نیند سے چونکا کے ان کو سرگراں کیوں کر کریں

پھر گیا تلوار کا منہ تھم گئے بازوئے دوست
کیوں اجل اس کی تلافی سخت جاں کیوں کر کریں

آتی ہے پچھلے پہر بس دل دھڑکنے کی صدا
راز داران وفا آہ و فغاں کیوں کر کریں

پھاندنا دیوار جنت کا تو آساں ہے مگر
آپ کے دل میں جگہ اے مہرباں کیوں کر کریں

انقلاب دہر نے آنکھوں کو اندھا کر دیا
آخر اب نظارۂ فصل خزاں کیوں کر کریں

ناتوانی کا برا ہو آہ کر سکتے نہیں
کیوں فلک اب جذب دل کا امتحاں کیوں کر کریں

اس طلسم دہر میں سر بھی اٹھا سکتے نہیں
کشمکش میں سیر نیرنگ جہاں کیوں کر کریں

سر پٹکتے ہیں عبث نقش قدم پر دیر سے
آبلہ پا جستجوئے کارواں کیوں کر کریں

ہوش میں پھر کون تھا جب درد کا ساغر چلا
آخر شب کی وہ کیفیت بیاں کیوں کر کریں

ہاتھ پھیلایا نہ جائے گا بھری محفل میں آج
صبر کی دولت کو ساقی رائیگاں کیوں کر کریں

جھوم کر اٹھتے ہیں لیکن پھر سنبھل جاتے ہیں مست
سامنا ساقی کا ہے گستاخیاں کیوں کر کریں

پھاڑے کھاتی ہے ہمیں یہ ملگجی پوشاک میں
جامۂ تن کی بتاؤ دھجیاں کیوں کر کریں


This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.