شگوفہ محبت/انشا پردازی دبیر خاقان چین کی
انشا پردازی دبیر خاقان چین کی،ظاہر انکار باطن میں اقرار،کس خوبصورتی سے نہیں نہیں کی
مستوجب حمد، قابل ثنا وہ صناع عجائب نگار ہے جو مور سے سلیمان کا جن و انسان کا پرودگار ہے، جس نے یہ ہفت گنبد بے ستون و در، ہموار اور مدور بنائے اور مشعل مہر و ماہ سے شام و پگاہ میں فرق کیا۔ ستاروں کے چراغاں سے کیا کیا جھمکڑے نظر آئے۔ جو دن ہے تو کس قدر روشن ہے کہ بال کی کھال نظر آتی ہے۔ اگر رات ہے تو ظلمات ہے، وہ تاریکی ہے کہ اپنا ہاتھ سرِ دست ہیہات سوجھتا نہیں ۔ طبیعت گھبراتی ہے، ہمارے عجز سے اور کا اختیار ثابت ہوتا ہے۔ وہ قدرتِ کردگار ہے، دعوی وہم غلط بیکار ہے۔ جس دم وہ اپنی طاقت دکھاتا ہے مورِ ضعیف سے فیلِ مست کو پست کرتا ہے۔ اینٹ کی خاطر مسجد ڈھاتا ہے۔ پشے نے نمرود سے سرکش کے دماغ پُر باد میں جاپائی، فرعون کی قضا موسیٰ علیہ السلام کے ہاتھ میں سونپی، پانی میں ڈُبا کے جہنم کی آگ دکھائی۔ بجز عجز و قصور فتور اُس درگاہ میں پسند نہیں، کام اس کا کسی چیز پر بند نہیں۔ جس نے گردن کشی سے سرتابی کی، طرفۃ العین میں خانہ خرابی کی۔ قدرتیں اس کی قابل اظہار لائق بیان نہیں، کالشمس نصف النہار عالم پر روشن ہیں نہاں نہیں۔ اور سزاوار درود و سلام نبی ہمارا علیہ السلام ہے جس نے ایک انگلی کے اشارے سے قمر کو دو کیا۔ فرماں برداروں نے اس کے جو چاہا سو کیا۔ وہ شرع کی شاہراہ نکالی کہ عاصیوں نے مغفرت کی سبیل پائی۔ ہر کلمہ گو کو، اس کے پیرو کو اطاعت و فرمانبرداری اس خجستہ صفات کی سند ہے وسیلہ نجات کی۔ لہذا اس وادیِ ناپیدا کنار سے عنان شبدیز خامہ معطوف کر کے گرم خیز دشت مدعا کیا۔ محبت نامہ عطوفت شمامہ مع تحائف مرسلہ بہ ساعت سعید ذریعہ برید سے ملاحظہ میں آیا۔ ہر فقرے نے اتحاد کا لطف دکھایا۔ مضمون مکتوب سے خیر و شر کے بھی پہلو ظاہر ہوئے، حقیقت حال کیفیت مآل سے ماہر ہوئے۔ مجبور ہیں کہ تم نے کلام خدا کی سپر میں پناہ لی ہے، گواہی مخبر صادق علیہ السلام کی حدیث سے دی ہے۔ مجبور چارا نہ ہوا، انکار گوارا نہ ہوا کہ آدم علیہ السلام کے زمانے سے تا ایں دم بے بیش و کم یہی سلسلہ چلا آیا ہے اور نسلاً بعد نسل، بطناً بعد بطن اس گُتھی کو کسی نے نہیں سلجھایا ہے اور اظہار قدرت پروردگار، آبادیِ شہر و دیار منحصر اس کار پر ہے۔ جو امور شرعیہ، خدا و رسول کے احکام سے اجتناب کرے مثل شیطان واجب اللعن ہو، آبرو کو خراب کرے۔ ورنہ اے مہربان یہی گویہی میدان ہوتا، خدا نہ دکھائے جو سامان ہوتا۔ دوسری یہ بات ہے کہ بدوِ شعور سے آج تک تا مقدور طبیعت جویائے صلح رہی، جنگ سے انکار رہا، مروت اور محبت پر دارمدار رہا۔ آج نہیں کل اس وادی میں قدم دھرنا تھا، بارِ دوش اتارنے کو یہی کام کرنا تھا۔ اب بے جستجو یہ معاملہ رو برو آگیا، آیہ و حدیث پر عمل کیا۔ گردن جھکائی، تمھاری تمنا بر آئی۔ جس وقت جی چاہے، بے تردد رہ نورد منزل مقصد ہو۔ حسب امکان جو کچھ ہو سکے گا ظہور میں آئے گا۔ سفر وسیلہ ظفر ہے، لطف دکھائے گا۔ وہ جو جنگ و جدال کا حال لکھا تھا، شاہان نامدار کا شب و روز یہی کار ہے۔ راحت خلق اپنا آزار ہے، پاسبان بدائع ودائع کردگار ہیں۔ یہی مشغلے ہمارے لیل و نہار ہیں۔ مجبور ہیں کہ اسی کام پر مامور ہیں۔
نامہ تمام ہو کے بند ہوا۔ درِ امید کھلا۔ سربمہر ایلچی کو حوالے کیا۔ دم رخصت اور خلعت گراں بہا نوادرات جا بجا دوستانہ دے کے روانہ کیا۔ نامہ دار فائز المرام شاد کام نسیم صبا سے تیز تر دشت و کوہسار طے کر کے درِ دولت پر حاضر ہوا۔ بشرہ شناسوں نے مژدۂ بشاشت مشتاق لیل و نہار سلطان ذی وقار کو دیا۔ روبرو طلب کیا۔ نامے کا جواب سن کے آذر شاہ فرطِ مسرت سے بت ہوگیا۔ وزیر سے فرمایا کہ یہ ماجرا سچ ہے یا بات کی پچ ہے۔ وہ قسم شدید بے تامل کھانے لگا، اس وقت شہریار کو یقین آنے لگا۔ اسی دم بے اندیشہ و غم تیاریِ سفر گھر گھر ہونے لگی۔ منجمانِ دقیقہ رس، اختر شناسانِ پاکیزہ نفس کو یاد فرمایا۔ متفق اللفظ سب نے دیکھ بھال کے ایام بدی یُمن ٹال کے ایک روز مقرر کیا۔ وزیر صائب تدبیر نے بلا توقف و تاخیر علم و کمال کے مطابق فرد فرد کو مالا مال، دنیا کی احتیاج سے فارغ البال کیا۔ بروز معین ساعت مقرر بڑے کر و فر سے مع فوج و لشکر شاہ خجستہ نہاد روانہ ہوا۔ نِت نیا مدّ نظر آب و دانہ ہوا۔