Jump to content

شگوفہ محبت/بسم اللہ الرحمن الرحیم

From Wikisource


حمدِ پروردگار بحر ذخّار دریائے ناپیدا کنار ہے، بڑے بڑے پیرا کوں نے اس میں غوّاصی کی، اپنے اپنے ظرف کے موافق بھر لیا، سر پر دھر لیا، نہ کسی کو تھاہ ملی نہ کنارا نظر آیا؛ زیادہ بڑھے تو غوطہ کھایا، جَلّ جلالُہ۔ بال سے باریک یہ راہ ہے، خیٖرہ اس میں دور بینوں کی نگاہ ہے۔ مولوی معنوی ؂

در بہاران زاد و مرگش دردی ست

پشّہ کے داند کہ این باغ از کی ست


لڑکپن میں تمیز نہیں ہوتی، جوانی دیوانی مشہور ہے، موسم شباب میں لہو و لعب کے سوا کوئی شے عزیز نہیں ہوتی۔ صائب ؂

گہ بہ پای خم افتم، گہ سبو زنم بر سنگ

ساقیا مرنج از من عالم جوانیھاست


القصہ ان خرابیوں سے بچ گئے، سواری کی تیاری ہوئی، کوچ کی غل مچ گئی، نشہ اترے، مُسن ہوئے، بڑھاپے کے دن ہوئے، سمجھنے بوجھنے کا جب موقع آیا تو اُدھر ضعف نے جھکایا اِدھر قضا نے گور کے گڑھے کو جھکایا۔ وہ قادر و توانا ہے، علیم و دانا ہے جس نے دو حرف سنا کے ایک عالم کا جلوہ دکھایا، اُس میں بشر ہے جس کی طبیعت کا میلان بہ شر ہے، یہ بہت پسند آیا۔ اسی میں نبی ہوئے، ولی ہوئے، شاہ و گدا ہوئے؛ بغور دیکھیے تو کیا تھے اور کیا ہوئے۔ کبھی رات ہوتی ہے کبھی دن ہے اسی کے امکان میں ناممکن ہے۔ ہر قطرہ اس بحر کا محیط ہے دریا ہے، ہر ذرہ اس صحرا کا بسیط ہے، دیکھنے کا تماشا ہے۔ اس گلشن خزاں مآل میں وہی خار ہے جو اٹکا سب کی آنکھ میں کھٹکا۔ کُمیت فکر بصد جولانی گشت سے رہ گیا، تازیانے کی چوٹ سہ گیا۔ اسکندری کھائی بھٹکا پھر کوئی پاس نہ پھٹکا۔ مگر اس کائنات بے ثبات کے معاملوں سے سر رشتۂ محبت سلسلۂ اتحاد اگرچہ وہ بھی بے بنیاد ہے اس پر سب کو پسند آیا ہے۔ پاکبازوں نے لطف اٹھایا ہے۔ رم خوردہ اس میں رام ہوئے ہیں، اسی دام میں گرفتار دد و دام مدام ہوئے ہیں۔ جب دوئی کو دور کیا یک رنگی نے ظہور کیا۔ سُنا ہوگا لیلیٰ کے ہاتھ پر گذر نشتر ہوا مجنوں کا تمام جسم لہو سے تر ہوا، ایک کا دل خون ہوا تو دوسرے کی خانہ خرابی ہو گئی، جنون ہوا۔ آخر کار لیلیٰ کی حالت جب ہو جاتی ہے وہ کیفیت بہر کیف تحریر تقریر میں نہیں آتی ہے۔ ہم سے کور باطنوں کی نظر میں دید کی طاقت کہاں، حقیقت حال دریافت کرنے کی لیاقت کہاں، ورنہ ہر برگ گل تر ہزار بلبل کے خون کا محضر ہے، نغمہ سنجان گلشن ایجاد کے بولنے کا کچھ اور ہی گھر ہے۔ سرو کی دار پر لاکھ قمری کے قتل کا مدار ہے، فاختہ کی کو کو گواہِ تارا جیِ صبر و قرار ہے۔ تلوّن پر اس کارگاہِ بے بنیاد کی رونق ہے، مستعار سب نقش و نگار ہے، عبرت الناظرین کو کافی تفرقۂ لیل و نہار ہے۔ یہ حیرت نگر جو طلسم خانہ ہے، ہوشیار یہاں دیوانہ ہے۔ بے سقف و جدار ہے، دیوار ہے نہ در ہے، پھنسے ہوئے کہتے ہیں گھر ہے، اُجڑے ہوئے بستے ہیں، رونے کو ہنستے ہیں۔ کون و فسا میں نئی طرح کا یہ مخمصہ پڑا ہے کہ شاہ کے محل سے ملا ہوا چور کا جھوپڑا ہے۔ ہر نفس دونوں کو کھٹکا رہتا ہے، دغدغہ اٹکا رہتا ہے، کوئی بگڑتا ہے کوئی بنتا ہے، کوئی اینٹھ جاتا ہے کوئی تنتاہے۔ اگر منتظم اس کا غفلت پر مدار نہ رکھتا تو اس کارخانے میں سودائی بھی قدم زینہار نہ رکھتا۔ ہوشیار یہاں پھونک پھونک کے قدم رکھتے ہیں، جھلاتے ہیں ٹھوکر کا مزا جب چکھتے ہیں۔ اور وہ جو مست صنم پرست ہیں بخدا جس دم بے دغدغہ باگ اٹھاتے ہیں منزل مقصد پر پہنچ جاتے ہیں۔ جائے دم زدن نہیں خموشی درکار ہے۔ منصور تو لڑائی فتح کر گیا۔ اب تک اس دار ناپائدار میں ہزارہا دار ہے۔ عجز میں نباہ ہوتا ہے، غرور میں تباہ ہوتا ہے۔ سر رشتہ عقل کوتاہ ہے، یہ آیہ گواہ ہے فَبِــأَيِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَــذِّبَانِ۔

نعت سرورِ کائنات ہے چھوٹا منہ بڑی بات ہے

[edit]

وہ گروہ بہت خوش نصیب ہے جن کا حامی اور شفاعت کنندہ خدا کا حبیب ہے۔ خلقت میں اولین اور خاتم المرسلین، اس کی ذات اور صفات کی کنہ یا حقیقت کون پائے جس کا سایہ تک نظر نہ آئے۔ تقرب میں اُس درجہ پر چڑھ گیا کہ قاب قوسین سے مرتبہ بڑھ گیا۔ جس طرح پروردگار لاشریک ہے، اسی طور پر یہ پیمبر دوربینوں کے نزدیک ہے۔ نبی اور اس کی آل اور اصحاب پر شب و روز درود پڑھے، بکھیڑے میں نہ پڑے، آگے نہ بڑھے۔