شگوفہ محبت/تقریر دلپذیر اعجاز شاہ کی
تقریر دلپذیر اعجاز شاہ کی، حکایت بیان کرنی جہاں آرا شاہزادہ اور مہر جمال پری زاد کی، سمن رخ کا سنبھل جانا، خود رفتگی سے ہوش میں آنا
اعجاز شاہ نے کہا: اے ملکہ! سرزمین ایران یعنی خراسان میں ایک شاہزادہ تھا، مہر پیکر ماہ آسا، شاہزادۂ جہاں آرا اس کا نام تھا۔ سرو قامت، لالہ رخسار، عنبریں مو، سنبلیں گیسو؛ اس کے حسن کا شہرہ روم سے تا شام تھا۔ جس دم تخت سلطنت پر جلوس فرماتا تھا، نزدیک و دور سے ہزار ہا بندۂ خدا اس صنم کے دیکھنے کو آتا تھا۔ جوان رعنا، چاند کا ٹکڑا، خلق مروت ہمت شجاعت میں لاثانی، اس زمانے میں وہ آفت کا بانی اپنا عدیل و نظیر نہ رکھتا تھا۔ دوسری تصویر مرقع دہر میں فلک پیٖر نہ رکھتا تھا۔ رعایا کا دل عدل و داد سے شاد تھا۔ ملک زر ریز بہت آباد تھا۔ لیکن طبیعت کو میل سیر و شکار، دیکھنا عجائبات روزگار کا ہر دم مدِ نظر رہتا تھا۔ آٹھوں پہر تیار سامان سفر رہتا تھا۔ ایک روز بعزم شکار و صید نخچیر وہ بہرام گورگیر ہمراہیوں سے جدا یکہ و تنہا جنگل میں نکل گیا۔ جس دم خسرو خاور تمنائے جمال میں اس ہزبر خصال کی نصف منزل فلک طے کر چکا، حرارت کی تیزی سے دوپہر کی جلو ریزی سے شہزادے کو بھوک پیاس کا غلبہ ہوا۔ ساتھ والوں کے چُھٹ جانے کا مطلق خیال نہ رہا، شکار کے نہ پانے کا ملال نہ رہا۔ جس طرف سے پانی کا گمان ہوتا، ادھر باگ اٹھاتا۔ جہاں درخت سایہ دار گنجان کا شبہ پڑتا، سیدھا چلا جاتا۔ اسی دوڑ دھوپ میں صحرائے پربہار دشتِ لالہ زار میں اس کا گذار ہوا۔ ہر سو متحیر نگران، بے دانہ و آب خستہ خراب پریشان تو تھا۔ باغ کا قطعہ دور سے جو نظر آیا۔ اسپ صبا خصال رشک غزال کو اس طرف بڑھایا۔ قریب تر جب آیا تو قدرت صانع حقیقی کا جلوہ تقدیر نے دکھایا یعنی دیوار میں ایک اینٹ نقرئی دوسری طلائی ہے۔ جوڑ نہیں معلوم ہوتا اس حُسن سے ملائی ہے۔ آفتاب کے عکس سے برعکس غبار ہوتا ہے، اس قدر صفائی ہے۔ چاروں کونوں پر یاقوت کے بنگلے خورشید سے زیادہ چمکتے ہیں، الماس کے کلس نظر کو خیرہ کرتے ہیں، اس طرح دمکتے ہیں۔ اتنے بڑے آسمان پر ایک آفتاب اس باغ میں چار ہیں۔ عقل باریک بیں گم ہوتی ہے جیسے نقش و نگار ہیں۔ دروازہ رشک باب فردوس، عرض طولِ کئی کوس، یاقوت کی چوکھٹ، بازو زمرد کے پٹ، بلند اس قدر کہ ہاتھی مع عماری نکل جائے۔ شاہ شہریار کی سواری نکل جائے۔ مثل آغوش پر تمنا وا دروازے کا پٹ کُھلا ہوا۔ یہ تو مسافت دراز طے کر کے آیا تھا، حرارت سے گل رخسار مرجھایا تھا۔ وہاں حاجب نہ دربان پایا، سناٹے کا عالم سنسان پایا۔ بے دغدغہ اندر در آیا۔ بمجرد نگاہ حیرت نے نقشۂ تصویر بنایا۔ دیوار کے تلے نہر جاری تھی۔ اس کے متصل انگور کی تاک تھی، ہر شجر کی اسی پر تاک تھی۔ جواہر نگار ستون کھپانچ کے بدلے سنہری روپہلی تیلیاں، خاتم بندی کا کام، خوشوں پر زربفت کی تھیلیاں؛ مستانہ وار ہر ایک جھومتا تھا، ولولے میں آ کر خوشی کو خوشہ چومتا تھا۔ چمن کی روش پٹری خوش قطع، ڈالی ہر درخت کی ہموار کم و بیش چھانٹ ڈالی تھی، نئی روش نکالی تھی۔ نہروں کے گرد پٹریاں بلور کی قریب ہری ہری گھانس زمرد کو شرماتی تھی۔ نہروں میں فوارے چڑھے، بلبل کی روح بلبلا کے درود پڑھے۔ پانی کی شفافی پر جان لہراتی تھی۔ جو گل تھا متصل اس کے بلبلوں کا غنچہ دیکھا۔ نغمہ سنجی زمزمہ سرائی کی صدا تھی۔ خوشبو سے دشت مہکتا تھا۔ مسافر وہم و خیال کا ہر قدم پاؤں بہکتا تھا۔ عنبر فشاں نسیم و صبا تھی۔ مہتمم فضا تھی۔ ہر تختۂ چمن غیرت دہِ صد گلشن، جو پھول پھل تھا اس پر ہزار طرح کا جوبن، سب فصلوں کا میوہ تیار تھا۔ بہار نثار خزان کو سخت خار تھا
صد ہزاراں گُلی شگفتہ درد سبزہ بیدار آب خفتہ درد ہر گُلی گونہ گونہ از رنگی بوی ہر گل رسیدہ فرسنگی
رنگتروں کا تختہ جائے غور تھا، کچھ عالم ہی اور تھا۔ سبز سبز پتے سرخ سرخ پھل، پائے ہوس لنگ دستِ تمنا شل، جان بیکل ہوتی تھی۔ بہی بے ضرر، سیب معطر، ناشپاتی کا جوبن جدا، ذائقہ زبان چاٹتا۔ انار دانہ دار کہیں بے دانہ نادر روزگار یادگار زمانہ۔ امرود حلوائے بے دود، شریفے سے شریف تر میوہ نظر نہ آیا۔ میٹھا بہت شیریں چکوترا بصد تزئین، شربتی فالسے نے عجب چاشنی کا مزا پایا تھا۔ چکیّا آڑو کی قطار جدا، ایک سمت شفتالو کا پرا۔ خلاصہ یہ ہے کہ جو کبھی خواب میں نہ دیکھا تھا، وہ فلک نے بیداری میں دکھایا۔ اگر قوت نامیہ اُس زمین کی تحریر کروں، عجب نہیں جو چوب خشک خامہ یعنی نے قلم بے قلم برگ نکالے، ثمر آبدار لائے، صفحہ قرطاس تختہ گلشن ہو۔ خط شکستہ میں نستعلیقوں کے روبرو گلزار کا جوبن ہو۔ بین السطور سے دور سے نہر کی لہر آئے، صریرِ خامہ صفیر بلبل ہو۔ مسطر کا تار دام کا کام کرے۔ عندلیب کی عقل کا چراغ گل ہو۔ نکتہ چین بدبیں کمبخت کو خار ہو۔ تبِ رشک سے تبخالے ہوں، زبان پھل کر بیکار ہو۔ روشنائی سے حاسد اپنا منہ سیب ذقن تک کالا کرے۔ دانت کھٹے ہو جائیں، بار دگر کسی کا عیب نہ نکالا کرے۔ غرض کہ چمن کے تختوں میں نہال پر ثمر، بار دار شاخ سے شاخ مشتاقوں کی طرح پیچاں دست و گریباں، چینی کی ناندیں یا بلور کی نور کی طلائی کار روشوں پر برابر برابر ان میں درخت گلدار بیلا، موتیا، نسرین و نسترن، جوہی، شب بو، چنبیلی، نرگس، یاسمن۔ کسی جا لالے کے پیالے یاقوت رنگ افیون سے لبریز، کسی طرف نیبو نارنگی کھٹے کی میٹھی میٹھی بو باس تیز، کہیں سنبل بازلف پریشان ایک جاسوس سو زبان باغبان قدرت کا مدح خواں، ہر تختے میں باد بہاری مستانہ وار لڑکھڑاتی، پھولوں کے پھولنے پر پتوں کو کھڑ کھڑاتی
نہریں تھیں لطیف مثل کوثر لہریں تھیں تمام سلک گوہر پانی تھا اثر میں آب حیواں نظارہ تھا جس کا مایۂ جاں
فواروں میں ساون بھادوں کی جھڑی کا مزا، بط و قاز قراقری کے خرام میں کبک دری کا مزا۔ کویل کوکتی پپیہے سے پی پی کی صدا، طاؤسان رقاص کا جا بجا جھمکڑا، برسات کی آمد، گرمی کی فصل کا اختتام، جابجا چشمہائے سرد و شیریں لہراتے، زمین پر فرش زمرد فام
ہر نخل کی شان جیسے طوبا
سبزے سے تھا دشت چرخ خضرا
سروِ شمشاد پر قمری اور فاختہ کی فریاد تھی، بلبل کی زبان پر گل کی شکایت حد سے زیاد تھی
سنبل میں تھا طرز ذو ذوانب شبنم میں تھا جلوۂ کواکب مانند شفق وہ پھول رنگین تھا رشک نجوم لطف نسرین
کنویں پختہ جن کی چاہ میں باؤلی دیوانی ہو جائے۔ پٹریاں ایسی تحفہ کہ انگور کی تاک جو ان کو جھانک لے تو شرمائے۔ رنڈیاں جوان جوان، باغبانیوں کی سامان، زربفت کے لہنگے، دھوتی کے انداز پر کُھسے، شبنم کے دوپٹے ان پری پیکروں کے جن میں لچکا ٹکا کرن لگی، اس کی گاتی سورج کے کرن سے زیادہ جگمگاتی، بُنت گوکھرو کی، انگیا کھچی، طرح دار کچوں کا اُبھار، جواہر نگار ہاتھوں میں کڑے سونے کی چھڑے، پاؤں میں پڑے چاندی کے بیلچے، کندھوں پر کُھرپیاں، طلائی ہاتھوں میں دلفریبی کی گھاتوں میں نسیم صحن چمن سے تو بے تکلف عطر سُہاگ کی لپٹ آتی تھی۔ لیکن اُس گلزار کی خاک بھی عود و عنبر کی بو باس کو شرماتی تھی۔
شاہزادہ دل میں سوچا کہ یہ کسی سلطان عالیشان کا باغ ہے۔ نشست کا مکان ہے۔ لیکن رنڈیوں کے بند و بست سے ثابت ہوتا ہے کہ زنانہ سامان ہے۔ پہلے تو سُچکا پھر تو جرات ذاتی نے کہا چلو دیکھو تو فلک کیا دکھاتا ہے، ایسا باغ بشر کے دیکھنے میں روز کب آتا ہے۔ یہ سوچ کر بے باکانہ باغ میں باخاطر فراغ سیر کرنے لگا۔ دفعۃً لب نہر ایک بنگلہ دیکھا کہ آنکھیں جھپک گئیں۔ جل جلالہ صانع نادرنگار کی صنعت کا جلوہ ہر بار پیش نظر جَگر جَگر کرتا تھا۔ رعب ایسا تھا، ہر قدم پاؤں اُس کا لڑکھڑاتا تھا بڑھنے کا قصد اگر کرتا تھا۔ آخر کار یہ بھی تو شاہزادہ عالی تبار تھا، گو دشت صعوبت میں غریب دیار تھا؛ قریب پہنچا۔ اس وقت فلک شعبدہ پرداز نے طلسم حیرت افزا کا نقشہ دکھایا۔ جابجا پری زادوں کا غنچہ نظر آیا۔ کچھ تو سکوت کے عالم میں نقش دیوار پائیں، تھوڑی سرگرم کاروبار پائیں۔ ان کو کام خدمت میں مصروف پا کے دل سے کہا: مقام غور ہے یہ سب کے سب خدمت گزار فرمانبردار ہیں، مالک ان کا کوکئی اور ہے۔ اور یقین کامل ہوا کہ یہ عقل کے خلاف ساز و سامان ہے۔ انسان کا حوصلہ یہ کہاں، خطۂ پرستان قوم بنی جان ہے۔ ان کو یہ خیال تھا، وہاں پری زادوں کا عجب حال تھا۔ جو جو وہاں موجود تھیں، کام کاج یک لخت بھول گئیں، شاہزادہ کا جمال بے مثال جو نظر پڑا سکتہ سا ہوگیا۔ ہوش حواس پاس نہ رہا، کھو گیا۔ اچھی صورت کا ہونا عجب چیز ہوتا ہے۔ آقا تو آقا ہے، بندہ کے نزدیک غلام بھی عزیز ہوتا ہے بلکہ غیر جنس کو تمنا ہو جاتی ہے۔ صاحب نصیبوں کے سوا کس کو یہ دولت ہاتھ آتی ہے۔ ان کو تو جلوۂ حسن نے تصویر کا پتلا بنایا۔ کسی نے کچھ نہ پوچھا کہ تم کون ہو کہاں سے آئے ہو۔ شاہزادہ نے ہاتھ بڑھا کر در سے پردہ اٹھایا۔ دفعۃً غفلت کے پردے آنکھوں پر پڑ گئے۔ قدم اٹھانا محال ہوا۔ عجیب حال ہوا۔ زمین میں پاؤں گڑ گئے۔ ایک آفت آسمانی، بلائے ناگہانی کو بصد انداز مسند ناز پر جلوہ گر پایا، وہ جو چند سیم بر اس کے ادھر ادھر جلوہ گر تھیں سب نے کون ہو کہاں چلے آئے، اس کا غل مچایا۔ شہزادہ تو حیرت کا مبتلا وحشی سا تازہ پھنسا ہر طرف دیکھ رہا تھا کہ شاہزادی نے اس کی صورت پر نگاہ کی۔ ایک نے کلیجہ پکڑ لیا، دوسرے نے بے ساختہ آہ کی۔ محبت کے معاملے تقریر اور تحریر سے باہر ہیں۔ دلفگار دو چار اس کیفیت سے ماہر ہیں۔ نہ مشاطہ کی حاجت ہوتی ہے، نہ قاصد کی لجاجت ہوتی ہے۔ نہ دخل نامہ و پیام ہوتا ہے، خالی ایک نظر دونوں کو لگ جاتی ہے۔ گردش چشم میں کام تمام ہوتا ہے۔ کبھی خواب میں دیکھ کے خیال ہوتا ہے۔ بے وصل وصال کا ڈول پڑتا ہے۔ دو دن کا جینا محال ہوتا ہے۔ کبھی تصویر دیکھ کے بت ہو جاتا ہے۔ عجب رنگ ہوتا ہے، نصیحت سے دل تنگ ہوتا ہے۔ سودے کے زور میں نشتر کوئی کھائے، لہو اور کے ہاتھ سے نکل آئے۔ عیاذاً باللہ ایک کو محمود ہوا تو لاکھ کا ضرر بے سود ہوا۔ جب تک داغ دل و جگر آلے رہتے ہیں، جینے کے لالے رہتے ہیں۔ یہاں تک خام ہے یعنی کچاہے بالکل جھوٹا ہے گو سچاہے۔ جس دم زخم ہو کہ ناسور ہوا، وہ بہادر سور ہوا۔ کچھ اور ہی لذت اس کی زبان پر آئی اور یہ کیفیت دکھائی کہ عین جنون میں صاحب حواس و ہوش ہوا۔ سوسن کی صورت ہزار زبان بہم پہنچی الاخموش ہوا، اور جو ولولے میں بیٹھے بیٹھے کچھ بول اٹھا، بند منہ کو کھول اٹھا تو محکمے میں گنہگار ہوا۔ محتاج ہوا یا سردار مگر برسرِدار ہوا۔ بال کی کھال اس میں کھنچتی ہے، جان کسی عنوان نہیں بچتی ہے۔ بڑے بڑے حوصلے والوں کی صریح بائی پچتی ہے۔
القصہ شاہزادہ نے لڑکھڑا کر قدم سنبھالا، غشی اور بے ہوشی کو بڑی ہشیاری سے ٹالا۔ ادھر وہ بھی سیدھی نہ رہ سکی، گردن خم ہو گئی۔ اجنبی کا بہانہ کر کے برہم ہو گئی۔ پری زاد نے دل و جگر کو تھام زبان سے کام لیا، کہا: بسم اللہ تشریف لائیے۔ خانہ خانۂ شماست، عنایت فرمائیے۔ شاہزادہ بے تکلف مسند پر جا کے تکیہ لگا کے اس گلرو کا ہم پہلو ہوا۔ بیٹھتے ہی ایک ساعت تک دونوں کو سکتے کا عالم رہا۔ نہ پری زاد صحیح نہ شاہزادہ سالم رہا۔ صاحب خانہ نے دیکھا، مہمان بولتا نہیں، لب کھولتا نہیں، مجبور ہو کے سلسلۂ کلام اسی سیم اندام نے شروع کیاکہ اپنے شہر کا نام، بود و باش کا مقام بتائیے، کچھ حسب و نسب سے آگاہ فرمائیے۔ شہزادہ نے جواب دیا: سرزمین ایران بیت السلطنت خراسان، سیر و شکار کی خواہش میں ہمراہیوں سے جدا ہو کے غریب دیار ہوا۔ ایسا شیر افگن غزال رعنا کا شکار ہوا۔ یہ سن کے اس نے جلیسوں سے فرمایا کہ یہ آوارۂ دیار کلبۂ تیرہ میں جلوہ گر ہے، مسافر نوازی مدنظر ہے۔ چند پری پیکر اٹھ کر آداب بجا لائیں، طرفۃ العین میں کشتیاں شراب ناب کی، قابیں کباب کی روبرو آئیں۔ اس کی وزیر زادی تھی سحر ساز نام، بصد ناز و انداز وہ گلفام اٹھی، ساقی بنی، کنٹر ہاتھ میں لیا، گیلاس کو بہت آب و تاب سے شراب ناب سے لبریز کر کے پری زاد سے کہنے لگی کہ یہ سیاح بے نام نشان خانہ بے تکلف میں مہمان ہے۔ فرمانروائی کو تہ کیجیے، یہ ساغر لیجیے، اپنے ہاتھ سے پلائیے۔ اور یہ شعر پڑھا
لبریز ہو چکا ہے یہ ساغر شراب کا
دورہ ہو جلد ڈر ہے مجھے انقلاب کا
پری زاد بولی ہم سمجھ گئے۔ یہ مسافر مد نظر ہوا۔ تمھارا میلان خاطر ادھر ہوا۔ بے فائدہ شرماتی ہو، تمھیں کیوں نہیں پلاتی ہو۔ وزیر زادی نے عرض کی: حضور اس وقت بدحواس ہیں۔ آپ میں کہاں ہیں اور ہم تو لڑکپن سے مزاج دان ہیں۔ تقریر میں طول ہوگا، اس سے کیا حصول ہوگا۔ فلک جفا سرشت تفرقہ پرداز ہے، مشہور شعبدہ باز ہے ؏
کسی کا اسے وصل بھاتا نہیں
دم غنیمت صحبتِ احباب ہے
آج جو ہے کل خیال و خواب ہے
پری زاد نے کہا: خیر تیری خاطر ہے، میاں مسافر! یہ جام حاضر ہے۔ بے کھٹکے نوش فرمائیے، وسوسے کا خیال نہ لائیے۔ باغ کو کفش خانہ سمجھیے، یہ صحبت اتفاق زمانہ سمجھیے۔ شہزادہ نے بصد تمنا اس کے ہاتھ سے جام لیا، پی کے پھر اپنے ہاتھ سے بھرا اور پری زاد کو دیا۔ علی التواتر پے در پے جام مے چلنے لگے۔ ہوش حواس کے پر جلنے لگے۔ جس وقت آنکھوں میں سرور ہوا، چشمکیں شروع ہوئیں، نشہ کافور ہوا۔ ہاتھا پائی کی نوبت آئی۔طرفین سے ولولوں کا جوش ہوا۔ چھڑ چھاڑ کر کے دفعۃً ہم آغوش ہوا
چو خانہ خالی و معشوق مست ناز بود
توان گریست بر آں کس کہ پاکباز بود
ہم صحبتیں شرمائیں، یہ کلمہ زبان پر لائیں کہ تم نے دیکھا یہ مردوا کتنا جلد باز ہے۔ کسی نے کہا شباب کا آغاز ہے، یہ سِن بُرا ہوتا ہے۔ مرد و رنڈی میں اور کیا ہوتا ہے، جوانی دیوانی ہوتی ہے، جہلو تو کیوں کھسیانی ہوتی ہے۔ کوئی بولی یہ تو مزے اڑائے گا، اگر حال کُھلا تو چونڈا کس کا مونڈا جائے گا۔ یہ تو اُوہی اُوہی کہہ کے اٹھ بھاگیں، اپنے اپنے موقع پر جا لاگیں۔ جب کوئی پاس نہ رہا، دغدغہ مٹ گیا، ہراس نہ رہا۔ بوس و کنار درکنار مساس ہونے لگا۔ مزے میں آئے، نشہ نے پینگ بڑھائے۔ گنج مقفل بے پاسبان نظر آیا۔ مار خفتہ نے سر اٹھایا۔ چاہا تھا کہ ازار بند کھولے، دُرج توڑے۔ پری زاد نے سنبھل کر ہاتھ جوڑے، کہا: سراسر ہوا و ہوس کا پابند انسان ہے، جلد بازی کار شیطان ہے۔ اس میں تیرا ضرر ہے، جان کا خوف و خطر ہے۔ تو خلقتِ بشر فردِ انسان، میں پری قوم بنی جان، سن تمیز سے میں نے مرد کا انکار کیا تھا۔ جنگل میں باغ بنا کے رہنا اختیار کیا تھا۔ اس پر فلک ستمگار نے یہ گل کھلایا۔ تجھ کو شکار کے حیلہ میں یہاں پہنچایا۔ مجھ کو ہم صحبتوں کی آنکھ میں ذلیل و خوار کیا، تیرے دام محبت میں گرفتار کیا۔ ننگ و ناموس کا مطلق پاس نہ رہا۔ قوم کیسی، ماں باپ کا خوف و ہراس نہ رہا۔ دو گھڑی میں یہ نوبت بہم پہنچی کہ بے تکلف ہو گئے۔ خواہش بیجا کو کام نہ فرما، اسی پر اکتفا کر جا، ورنہ یہ صحبت خواب و خیال ہو جائے گی۔ درِ باغ تک آنے کی بار نہ آئے گی۔ اگر بات بڑھ گئی تو خانۂ سلطنت لاوارث بے چراغ ہو جائے گا۔ تیرے ماں باپ کے دل پر تازہ داغ ہو جائے گا۔ لینے کے دینے پڑ جائیں گے۔ اس قامت رعنا کا کسی اور ہیئت میں انقلاب ہوگا، دربدر شکل جانور خراب ہوگا۔ میں پنبہ دہان سحر زبان ہوں، موافق کی دوست منافق کی دشمن جاں ہوں۔ اتنی گرم جوشی کو بہت مغتنم جان لے، اپنی جوانی پر رحم کر میری بات مان لے۔ کچھ دن یہاں قیام کر، موقوف خیال خام کر۔ پری زاد کی طرف سے جب یہ روکھا جواب ہوا، شہزادہ سُچک کر بر سر حساب ہو۔ ایک دم چُپ ہو رہا۔ مگر جسم سے جسم ملا تھا۔ پھر وہی ہنگامہ شروع ہوا۔ سچ ہے شباب میں بشر کو کچھ سوجھتا نہیں۔ ہر چند سمجھاؤ، پہیلی بوجھتا نہیں۔ پری زاد نے جو غور کیا کہ اس سمجھانے پر پھر اس نے وہی طور کیا، جھلا کے کچھ بُڑبڑائی، کہا: او خیرہ سر بن جا کبوتر۔ اس بات کا منہ سے باہر آنا، فوراً وہ جوان زمین پر تڑپ کے بے قرار ہوا۔ فلک نے یہ گل کھلایا، کبوتر تو بن گیا مگر نگار ہوا۔ برسر عداوت چرخ شعبدہ باز ہوا۔ مجبور خوف زدہ وہاں سے سر گرم پرواز ہوا۔