شگوفہ محبت/روانہ ہونا آذر شاہ کا شوکت و شان سے
روانہ ہونا آذر شاہ کا شوکت و شان سے، جلو میں فوج و سپاہ، گِرد ترقی خواہ بڑے تزک اور سامان سے
قصہ کوتاہ سب مرحلے طے کر کے جس دم چین کی سرحد میں لشکر کا گذر ہوا، آمادۂ کار براری سرگرم خدمت گزاری ہر جگہ کا اہلکار ہوا۔ القصہ کوہ و دشت بلند و پست طے کر کے بیت السلطنت کے متصل خیام ذوی الاحترم نصب ہوئے۔ آمد کا غلغلہ ساکنانِ شہر کے گوش زد ہوا، چھوٹا بڑا مسرور از حد ہوا۔ وزیر اعظم بصد جاہ و حشم مقربان بارگاہِ آسمان جاہ کو ہمراہ لے کے حاضر ہوا۔ دست بستہ سب نے نذر دی، ملازمت کی سعادت حاصل کی اور بادشاہ کا تشریف نہ لانا بموجب رسم زمانہ عرض کیا۔ رات اسی جگہ گذری۔ بڑے تکلف سے تمام لشکر کی دعوت کی۔ دمِ سحر وزیر شاہ کو شہر میں لایا۔ مکاناتِ مرتفع عالی سجے سجائے ان کے واسطے خالی ہوئے تھے، رہنے کو وہ مقام ملا، رنج و سفر سے آرام ملا۔ کچھ دنوں میں تعب راہ سے، حرجِ شام و پگاہ سے فرصت پائی۔ ساچق منہدی برات کی رات آئی۔ اگر اس کا بیان قلیل ہو، داستان طول طویل ہو۔ موافق آئین شاہان نامدار بڑے عز وقار سے شادی ہو گئی، مشتاق کی خانہ آبادی ہو گئی۔ کچھ دن بہر کیف راحت اور آرام میں بسر ہوئے، جلسے ہمدگر ہوئے۔ بعذر انتظامی شہر مملکت کی نفع و ضرر میں مصلحت سفر میں دیکھی۔ رخصت کا پیام ہوا، سامان سب مہیا ہوا، چلنے کا اہتمام ہوا۔ دم رخصت فرماں روائے چین نے اس قدر مال و اسباب، نقد و جنس، سیم و زر، الماس و گہر اُس رقم خاص کے سوا اور ایسا کچھ دیا کہ چشم ہمت آذر شاہ نے اس سے پہلے نہ دیکھا تھا۔ صدہا غلام زریں کمر، ہزاروں لونڈیاں گل اندام یاسمین پیکر سمن رخ کی خدمت کو دے کر بادیدہ تر وداع کیا۔ اس سانحہ کی خبر شہروں میں جو دور تر تھے، گھر گھر پہنچی۔ غرض کہ روز و شب قطع راہ بسان خورشید و ماہ آذر شاہ نے کی۔ بعد چندے بوئے وطن دماغ میں آئی، فلک نے اپنے شہر کی صورت دکھائی۔ مطلب دلی حاصل ہوا، مع الخیر شہر میں داخل ہوا، در باری سے بازاری تک مسرور دیکھا۔ دل سب کا شاد ہوا، از سر نو اتنا پرانا شہر آباد ہوا۔ جان نثار اور ترقی خواہوں نے اپنے حوصلے سے افزوں جلسے کیے۔