شہر میں تھا نہ ترے حسن کا یہ شور کبھو
Appearance
شہر میں تھا نہ ترے حسن کا یہ شور کبھو
مصر اس جنس سے اتنا نہ تھا معمور کبھو
عشق میں داد نہ چاہو کہ سنا ہم نے نہیں
عدل و انصاف کا اس ملک میں دستور کبھو
فکر مرہم کا مرے واسطے مت کر ناصح
خوب ہوتا نہیں اس عشق کا ناسور کبھو
گو نہ کر وعدہ وفا دے نہ مجھے اس کا جواب
مجھ سے ملنا بھی سجن ہے تجھے منظور کبھو
اپنی بے دردی کی سوگند ہے تجھ کو اے مرگ
تو نے دیکھا ہے یقیںؔ سا کوئی رنجور کبھو
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |