صبح دم روتی جو تیری بزم سے جاتی ہے شمع
Appearance
صبح دم روتی جو تیری بزم سے جاتی ہے شمع
صاف میرے سوز غم کا رنگ دکھلاتی ہے شمع
جس طرح کالے کے من کے روبرو گل ہو چراغ
دیکھ کر تعویذ زلف یار بجھ جاتی ہے شمع
صرف پروانہ ادب سے دم بخود رہتا نہیں
تیرے رعب حسن سے محفل میں تھراتی ہے شمع
گھیر لیتے ہیں تجھے پروانے اس کو چھوڑ کر
جس میں تو ہو کب فروغ اس بزم میں پاتی ہے شمع
کاربند عدل ہوتے ہیں جو ہیں روشن دماغ
بزم میں ہر سمت یکساں نور پہنچاتی ہے شمع
پردۂ فانوس سے باہر نہیں رکھتی قدم
روبرو تیرے رخ روشن کے شرماتی ہے شمع
جائے گریہ صحبت اہل تماشا ہے اثرؔ
ہے بجا روتی ہوئی جو بزم میں آتی ہے شمع
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |