صبح وصال زیست کا نقشہ بدل گیا
Appearance
صبح وصال زیست کا نقشہ بدل گیا
مرغ سحر کے بولتے ہی دم نکل گیا
دامن پہ لوٹنے لگے گر گر کے طفل اشک
روئے فراق میں تو دل اپنا بہل گیا
دشمن بھی گر مرے تو خوشی کا نہیں محل
کوئی جہاں سے آج گیا کوئی کل گیا
صورت رہی نہ شکل نہ غمزہ نہ وہ ادا
کیا دیکھیں اب تجھے کہ وہ نقشا بدل گیا
قاصد کو اس نے قتل کیا پرزے کر کے خط
منہ سے جو اس کے نام ہمارا نکل گیا
مل جاؤ گر تو پھر وہی باہم ہوں صحبتیں
کچھ تم بدل گئے ہو نہ کچھ میں بدل گیا
مجھ دل جلے کی نبض جو دیکھی طبیب نے
کہنے لگا کہ آہ مرا ہاتھ جل گیا
جیتا رہا اٹھانے کو صدمے فراق کے
دم وصل میں ترا نہ امانتؔ نکل گیا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |