صحن گلشن میں چلی پھر کے ہوا بسم اللہ
Appearance
صحن گلشن میں چلی پھر کے ہوا بسم اللہ
چشم بد دور بہار آئی ہے کیا بسم اللہ
مصحف رخ پہ ترے ابروئے پیوستہ نہیں
مو قلم سے ید قدرت نے لکھا بسم اللہ
اس قدر تھا وہ نشہ میں کہ یکا یک جو گرا
میں نہ بولا پہ مرے دل نے کہا بسم اللہ
زلف اس عارض رنگیں پہ بکھرنے جو لگی
بول اٹھی منہ سے وہیں باد صبا بسم اللہ
آج گلشن میں ذرا پاؤں جو پھسلا اس کا
گل ہنسا غنچے نے جلدی سے کہا بسم اللہ
یار قاتل مرے جو جو کہ لگاتا تھا وار
لب پہ ہر زخم کے نکلے تھی صدا بسم اللہ
شیشہ و ساقی و ساغر بھی حاضر ہیں نظیرؔ
مے کشی کیجئے اب دیر ہے کیا بسم اللہ
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |