صدمہ ہر چند ترے جور سے جاں پر آیا
Appearance
صدمہ ہر چند ترے جور سے جاں پر آیا
تس پہ شکوہ نہ کبھی میری زباں پر آیا
راست کیشوں کی تف آہ سے ڈر اے سرکش
تیر پھرتا نہیں جس وقت نشاں پر آیا
موسم شیب میں بے فائدہ ہے لعب شباب
کب ثمر دیوے ہے جو نخل خزاں پر آیا
دل پر خوں کو مرے غنچۂ تصویر کی طرح
لب وا شد نہ کبھی راز نہاں پر آیا
چشم انجم پہ نہیں ابر سے وہ روز سیاہ
جو مرے دیدۂ خوں ناب چکاں پر آیا
رات کو دیکھ کے اے ماہ تجھے غیر کے ساتھ
طعنہ زن دل کا مرے گل کے کتاں پر آیا
ہو کے استاد دبستان سخن میں سوداؔ
شعر کے قاعدہ دانان جہاں پر آیا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |