صدمے سے شب ہجر کے کب جان بر آئی
Appearance
صدمے سے شب ہجر کے کب جان بر آئی
یہ شام نہیں آئی قضا ہی مگر آئی
دیکھا مرا بستر جو کل اس شوخ نے خالی
ہر چند کیا ضبط مگر آنکھ بھر آئی
کرتا ہے کئی دن سے مرے قتل کی تدبیر
صد شکر کہ اس بت کی طبیعت ادھر آئی
آتے ہی ترے آ گئی اک جان سی تن میں
اے نگہت گیسوئے معنبر کدھر آئی
تصویر خیالی کی تری کیا کہوں شوخی
گہہ چھپ گئی نظروں سے تو گاہے نظر آئی
گلشن میں خزاں آئی تو بلبل یہ پکاری
اب فصل بہاری گل داغ جگر آئی
تربت پہ چڑھانے کو ترے سوختگاں کے
لے کے پر پروانہ نسیم سحر آئی
ہر تار نہانی ہی کو سمجھا میں رگ گل
یاد اس گل نازک کی جو مجھ کو مگر آئی
پوچھو تو ضمیرؔ جگر افگار کہاں ہے
جس دن سے گیا وہ نہ پھر اس کی خبر آئی
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |