صراحی کا بھرم کھلتا نہ میری تشنگی ہوتی
Appearance
صراحی کا بھرم کھلتا نہ میری تشنگی ہوتی
ذرا تم نے نگاہ ناز کو تکلیف دی ہوتی
مقام عاشقی دنیا نے سمجھا ہی نہیں ورنہ
جہاں تک تیرا غم ہوتا وہیں تک زندگی ہوتی
تمہاری آرزو کیوں دل کے ویرانے میں آ پہنچی
بہاروں میں پلی ہوتی ستاروں میں رہی ہوتی
زمانے کی شکایت کیا زمانہ کس کی سنتا ہے
مگر تم نے تو آواز جنوں پہچان لی ہوتی
یہ سب رنگینیاں خون تمنا سے عبارت ہیں
شکست دل نہ ہوتی تو شکست زندگی ہوتی
رضائے دوست قابلؔ میرا معیار محبت ہے
انہیں بھی بھول سکتا تھا اگر ان کی خوشی ہوتی
This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator. |