Jump to content

صفحہ 1 - خان

From Wikisource

خان

میں نہا کرغسل خانے سے نکلا تو اماں جان نے کہا ہم باہر سوئیمینگ پول پر ہیں اور چاۓ تیار ہے۔ میز چاۓ، سموسے ، نمک پارے اور میری پسندیدہ مٹھائ قلاقند سے سجی ہوئ تھی۔ سعدیہ کی آنکھیں اب تک سرخ تھیں۔ لیکن وہ مسکرا رہی تھی۔ میں نےما ں کا ماتھاچومااور پھر سعدیہ کا ماتھا پیار سے چوما۔ اماں نے میرے نے چاۓ پیالی میں نکالی۔

” ماں“۔میں نے کہا۔” ایک دفعہ آپ نے ذکرکیا تھا کہ آپ اوراباجان نے کالج سے ایک سال کی چھٹی لے کر پیس کورPeace Core میں کام کیا تھا“ ۔

” ہاں اور ہمارا اسائنمنٹ افغانستان اور صوبہ سرحد تھا“ ۔ماں نے کہا۔

میں نے سموسے کے ایک ٹکڑے پر ہری مرچ کی چٹنی لگا کر کھایا۔اور پھر چاۓ کا ایک گونٹ لیااور ماں سے پوچھا۔ ” یہ صحیح ہے کہ پاکستان اور افغانستان کی سرحد کےدونوں طرف لوگ ایک ہی نسل کے ہیں“؟ ” ہاں وہ سب پختون ہیں“۔

پختونخواہ میں باجوڑ کے ترکلانی سوات اور ملاکنڈ کے’ یوسفزئ‘ اور خیبر، کوہاٹ اور پشاور کے ’ آفریدی‘ ، مھند کے’ مھمند یا مومند‘ ، اورکزئ کے ’ اورکزئ ‘ ،کرم کے ’ طوری ‘ اور’بنگش‘ شمالی وزیرستان کے ’ وزیری‘ ، جنوبی وزیرستان کے ’ محسود اور ارمڑ‘ ، ڈی آئ خان اور ٹانک کے ’ بیٹنی اور شیرانی‘ ، کوہاٹ کے ’ خٹّک اور اعوان ‘ اور بہت سی دوسری خیلیں“ ۔

سعدیہ نے پوچھا”۔ پختون اور پٹھان ایک ہیں؟“

ماں نے مسکرا کر کہا۔” ہاں، ہندوستانی پختونوں کو پٹھان کہتے ہیں، ایرانی افغان مگر یہ خود کو پختون کہتے ہیں“ ۔


مجھ ایک نظم یاد آرہی جو پختونخواہ کے ایک مشہور شاعر نے ’ خان ‘ کے بارے میں لکھی ہے۔