Jump to content

صفحہ 2 - خواہش

From Wikisource

بہت عرصہ پہلے ایک مشہور مسلمان سپہ سالارکو ایک مشکل فیصلہ کرنا پڑا جو اس کو جنگ میں کامیاب کردےگا۔ وہ اپنی فوجوں کوایک ایسے دشمن سے لڑنے کے لیے لے جا رہا تھا جس کی فوجیں تعداد میں اس کی فوجوں سے کئ گنا بڑی تھیں۔ اُس نے اپنے سپاہیوں کوکشتیوں میں سوار کیا اورکشتیوں کو اسلحہ سے لاد دیا۔ جب وہ دشمن کے ملک پہنچا تواس نے کشتیاں جلانے کا حکم دے دیا جو ان سپاہیوں کووہاں لائ تھیں۔اُس نے اپنے بہادروں سے کہا۔ ” تم اُن کشتیوں کو جلتا دیکھتے ہو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس جنگ کو جیتے بغیر ہم زندہ واپس نہیں جا سکتے۔ جیتو یا مرجاؤ“ ـ سپہ سالارطارق بن زیاد کواسپین فتح کرنے میں کامیابی ہوئ۔

اباجان نے میری طرف دیکھا اور کہا سعدیہ نے’ آرزو‘ اور’ خواہش‘ کے بجاۓ ’ چاہنا ‘ کیوں استعمال کیا۔ میں نے کہا۔ اگر ہم ان الفاظ کو ’ ضرورت‘ اور ’ مقصد‘ کے لحاظ سے دیکھیں تو سب سے چھوٹا درجہ آرزو کو دیں گے۔آرزو سب سے کمزور ہے اور چاہت سب سے مضبوط ۔ چاہت کے لیے جس چیز کی کمی ہوتی ہے، اس چیز کو حاصل کرنے کی لگن۔ انسان کے دل میں کوئ چیز ہے جو اس چاہت کو حاصل کرنے کے لیے اُ کساتی ہے۔

اباجان نے ہنس کرکہا۔” بیٹا تم صحیح کہتے ہو“۔

میں نے سعدیہ کا جملہ دُہرایا۔” اباجان میں آج ضرور جانا چاہتی ہوں“۔

سعدیہ نے اس جملے میں دوا لفاظ ایسے استمال کیے ہیں جو اس کے ارادہ کومقرر اور شدید کرتے ہیں۔

” سعدیہ بیٹا وہ کیا ہیں؟“

” آج اور ضرور“ سعدیہ نے کہا۔

سعدیہ کیا چا ہتی ہے؟

گیٹی کے میوزیم میں جانا۔

کب جانا چاہتی ہو؟ “

” آج“

”اس چاہت کو کونسا لفظ "شدید" کرتا ہے؟“

” ضرور“

اباجان نے کہا۔ ”میں تم کو اب ایک سچی کہانی سناتا ہوں“۔