Jump to content

صفحہ 3 - ساحل سمندر

From Wikisource

میں ہوائ مخلوق ہوں اور ایک گلائیڈر کی طرح فضا میں اُڑ رہا ہوں۔ میرے چاروں طرف خاموشی ہے۔ میرے نیچے دور دور تک چٹانوں کا سلسلہ ہے۔ ہر طر ف سبزہ ہی سبزہ ہے۔اچانک آندھی اور طوفان برپا ہوا اور ہوا کے جھکڑ چلنے لگے اور بارش ہونے لگی۔ اور سعدیہ کی آوازیں آنے لگیں۔ میں ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھا۔

سعدیہ پانی کا جگ لیے کھڑی تھی۔ سعدیہ پانی کا جگ پھینک کر مجھ سے لپٹ گئ۔بھیا میں نے آپ کی کہانی پڑھی۔ میں آپ سے بہت محبت کرتی ہوں۔آپ میرے لیے دنیا کے انسانیت سے بھرے مردوں کی نشانی ہیں۔ میں نے اپنے کندھے کو آنسووں سے گیلا محسوس کیا۔میں نے سعدیہ کو اپنی باہوں میں زور سے سمیٹا۔

” بھائ جان یہ میری پسلیاں ہے۔آپ پھلوں کا عرق نہیں نکال رہے“ ۔

ہم دونوں بہت دیر تک اس طرح کھڑے رہے۔ سورج نکل آیا۔ اس کی روشنی نے لہروں میں جھلملاہٹ پیدا کی۔

ہم چادر پر بیٹھ گیے۔ میں نے گھر کی طرف دیکھا۔ اماں اور اباجان سیڑھیوں سے اتر کر ہماری طرف آرہے تھے۔ان کے ساتھ ایک حسین اور خوبصورت لڑکی تھی۔

” وہ سکینہ ہے“۔ سعدیہ نے فخر سے کیا۔

” جب میں نے اس کو آپ کی کہانی بھیجی ، تو وہ آپ سے ملناچاہتی تھی۔ وہ یہاں لاس انجلیس میں تھی”۔

میں نے اپنا شارٹ ویو ریڈیو آن کیا۔ اس پر کوئ علامہ اقبال کی نظم’ پھولوں کی شہزادی’ پڑھ رہا تھا۔

کلی سے کہہ رہی تھی ایک دن شبنم گلستاں میں رہی میں ایک مدت غنچہ ہاۓ باغِ رضواں میں

تمھارے گلستاں کی کیفیت سرشار ہے ایسی نگہ فردوس در دامن ہے میری چشمِ حیراں میں

سنا ہے کوئ شہزادی ہے حاکم اس گلستاں کی کہ جس کے نقش پا سے پھول ہوں پیدا بیاباں میں

کبھی ساتھ اپنے اس کے آستاں تک مجھ کو تُو لے چل چھپا کر اپنے دامن میں برنگِ موجِ بُو لے چل

کلی بولی سریرآرا ہماری ہے وہ شہزادی درخشاں جس کی ٹھوکر سے پتھر بھی نگیں بن کر

مگر فطرت تری افتندہ اور بیگم کی شان اونچی نہیں ممکن کہ تو پہنچے ہماری ہم نشیں بن کر

پہنچ سکتی ہے تو لیکن ہماری شاہزادی تک کسی دکھ درد کے مارے کا اشکِ آتشیں بن کر

نظر اس کی پیامِ عید ہے اہل محرم کو بنادیتی ہےگوہرغمزدوں کے اشک پہم کو

خاتمہ باب اول


پختون کی بیٹی باب دوم - اجتماع