Jump to content

صفحہ 3 - یقین و ایمان

From Wikisource

” تم ان سے یہ کیوں نہیں کہتے کہ ایمان ایک ایسا جذبہ ہے جس کو ایک ایسی دماغ اغرق ہو نے کی کیفیت کہہ سکتے ہیں جو ہم اظہار حلقی کے دہرانے سے پیدا کرسکتے ہیں”۔

ماں نے ہماری سمجھ کو سلجھانےکی ناکام کوشش کی۔

” بھائ جان، مدد یہ لوگ کیا کہہ رہے ہیں“۔ سعدیہ نے مجھ سے ہاتھ جوڑ کر کہا۔

میں نے کہا۔” ماں نے بتایا نا“۔

” ماں نے بتایا نا“۔ سعدیہ نے میری نقل اُتاری اور مجھےگھاس پردھکا دے دیا۔

” اچھا، اچھا۔ میں بتاتا ہوں“۔ اباجان نے کہا۔

” تبسم، تمہاری سہیلی پانچ وقت کی نماز پڑھتی ہے اور ہر نماز کا اختتام اللہ سے دعا مانگنے پر کرتی ہے”۔

” یہ تو مجھے پتہ ہے اور وہ ایک نیک مسلمان ہونے کی دعا مانگتی ہے۔ تو! “۔ سعدیہ نے حیرت سے کہا۔

” کیوں؟“ اباجان نے سعدیہ سے پوچھا۔

سعدیہ کے دماغ میں بجلی کی طرح خیال پیدا ہوا“۔ اقرار آرزو سے ایمان، اظہارحلقی۔وہ اپنے آپ سے ایک نیک مسلمان بننے کا اقرار کرتی ہے اور کم از کم دن میں پانچ دفعہ اس اقرار کو دہراتی ہے“۔

اباجان اگرآپ نے پہلے ہی تبسم کی بات کی ہوتی تو میں جلدی سمجھ جاتی۔

میں نے کہا " امی سعدیہ کو سیدھی سی بات کو سمجھنے میں بڑی دیر لگتی ہے"۔

سعدیہ نے ہاتھ بڑھا کر میرے بازو میں زبردست چٹکی لی۔" ہمholy shrine میں تھے۔ میں نے اپنی چیخ کو روک لیا" ۔ ابا جان نے کہا”۔” اگر آپ کسی بات کو بار بار دُہرائیں تو تحت الشعور اس پر یقین کرنے لگتا ہے“۔

سوچ کا جذباتی حصہ (ایمان و یقین) ، سوچ کو زندگی بخشتا ہے اور اس پرعمل کرنے پر اکساتا ہے۔یقین اور لگن کے جذبات یکجا ہوکرسوچ کو بہت بڑی قوت بنا دیتے ہیں۔

کسی چیز کو حاصل کرنے میں کامیابی کا پہلااصول اس چیز کی زبردست خواہش اور دوسرا اصول اپنی کامیابی کا یقین ہونا ہے۔