صفحہ 8 - سکینہ
پاکستان کو اپنی ’ ریگوبرٹا ‘ چاہیے جس نے اپنی زندگی’ گواٹامالا ‘ کے انڈیجنس( اصلی مقامی لوگ) لوگوں کی فلاو بہبود میں سونپی ہے۔ ریگوبرٹا مینچو نے اس کول یا کالج میں نہیں پڑھا۔ اس نے اپنے آپ کو پڑھایا.۔
پاکستان کو اپنی’ کریتیا ‘ چاہیے۔ جو کہ تھائ لینڈ میں لڑکیوں کے بیوپار کو ختم کرنےمیں مصروف ہیں ’ کریتیا ارچاون تیکول ‘ نے اس کام میں اب تک 20 سال گزارے ہیں۔
پاکستان کو اپنی’ نوال‘ چاہیے۔جو کہ مصر میں عورتوں کو مردوں کی فوقیت اور غلبت کے جال سے آزاد کرنے کے لیے مصروف ہے۔’ نوال السادوی‘ سےانکی میڈیکل ڈاکٹر کے کام کی اجازت مصر کی حکومت نے چھین لی ہے۔ پاکستان کو اپنی’ تھریسا’ چاہیے جس نے اپنی زندگی، کلکتہ کے غریبوں کے لیے وقف کردی۔ پوپ نے کلکتہ کی ماتا تھریسا کو اولیا saint کا درجہ دیا۔
پاکستان کو’ پختون کی بیٹی’ چاہیے۔ جو اپنی بہنوں، اپنی ماؤں کوآزادی دلانے کے لۓ اپنی زندگی وقف کردے۔ جو ’ روزا ‘ بن جاۓ۔ جو ’ سوو ‘ بن جاۓ۔۔ جو’ ریگوبرتا ‘ بن جاۓ۔۔جو ‘ کریتیا’ بن جاۓ۔۔ جو ’ نوال ‘ بن جاۓ۔۔ جو’ تھریسا ‘ بن جاۓ۔۔
” ماں ، مگر میں کیا کروں؟“۔
” تم کواس پختون کی بیٹی کو ڈھوڈنا ہے۔ تم کو ریمشا کو ڈھوڈنا ہے۔ تم کوگل کو ڈھوڈناہے۔ تم کو نورا بی بی کو ڈھوڈناہے“۔
” میں ا نکو کہاں پاؤں گا؟“
” وہ کرک ، بنّوں، لکی مروت، ٹانک اور ڈیرا اسمعیل خان میں گھومتی ہے۔وہ سوات میں بستی ہے۔ وہ چترال میں ملتی ہے۔وہ کوہستان میں ہے۔وہ بٹگرام میں رہتی ہے۔اس کا رنگ دیربالا میں جھلکتاہے۔وہ دیر پیاں میں موجود ہے۔وہ مانسہرہ اور شانگلہ میں رہتی ہے۔ وہ بونیرمیں بستی ہے۔وہ صوابی، مردان ، پشاور، نوشہرہ اور چارسدہ میں رہتی ہے۔وہ مالاکنڈ میں رہتی ہے۔وہ ایبٹ اباد اورہری پور میں ملتی ہے۔اس کی سانسیں کوہاٹ اورہنگومیں محسوس کرو گے۔ تم اس کو پختونخواہ کے تمام اضلاع میں پاؤگے“۔