صنم کوچہ ترا ہے اور میں ہوں
Appearance
صنم کوچہ ترا ہے اور میں ہوں
یہ زندان دغا ہے اور میں ہوں
یہی کہتا ہے جلوہ میرے بت کا
کہ اک ذات خدا ہے اور میں ہوں
ادھر آنے میں ہے کس سے تجھے شرم
فقط اک غم ترا ہے اور میں ہوں
کرے جو ہر قدم پر ایک نالہ
زمانے میں درا ہے اور میں ہوں
تری دیوار سے آتی ہے آواز
کہ اک بال ہما ہے اور میں ہوں
نہ ہو کچھ آرزو مجھ کو خدایا
یہی ہر دم دعا ہے اور میں ہوں
کیا درباں نے سنگ آستانہ
در دولت سرا ہے اور میں ہوں
گیا وہ چھوڑ کر رستے میں مجھ کو
اب اس کا نقش پا ہے اور میں ہوں
زمانے کے ستم سے روز ناسخؔ
نئی اک کربلا ہے اور میں ہوں
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |