Jump to content

طاقت نہیں ہے جی میں نے اب جگر رہا ہے

From Wikisource
طاقت نہیں ہے جی میں نے اب جگر رہا ہے
by میر تقی میر
315599طاقت نہیں ہے جی میں نے اب جگر رہا ہےمیر تقی میر

طاقت نہیں ہے جی میں نے اب جگر رہا ہے
پھر دل ستم رسیدہ اک ظلم کر رہا ہے

مارا ہے کس کو ظالم اس بے سلیقگی سے
دامن تمام تیرا لوہو میں بھر رہا ہے

پہنچا تھا تیغ کھینچے مجھ تک جو بولے دشمن
کیا مارتا ہے اس کو یہ آپھی مر رہا ہے

آنے کہا ہے میرے خوش قد نے رات گزرے
ہنگامۂ قیامت اب صبح پر رہا ہے

چل ہم نشیں کہ دیکھیں آوارہ میرؔ کو ٹک
خانہ خراب وہ بھی آج اپنے گھر رہا ہے


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.