طبیعت کوئی دن میں بھر جائے گی
Appearance
طبیعت کوئی دن میں بھر جائے گی
چڑھی ہے یہ آندھی اتر جائے گی
رہیں گی دم مرگ تک خواہشیں
یہ نیت کوئی آج بھر جائے گی
رہے پیروی ہجر ہو یا وصال
کہ اک بات آخر ٹھہر جائے گی
محبت میں اے دل نہ ڈر سر پہ کھیل
وہ بازی نہیں یہ کہ ہر جائے گی
نہ گزری شب ہجر سمجھے تھے ہم
تڑپتے پھڑکتے گزر جائے گی
دیا دل تو اے داغؔ اندیشہ کیا
گزرنی جو ہوگی گزر جائے گی
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |