طرز قدسی میں کبھی شیوۂ انساں میں کبھی
Appearance
طرز قدسی میں کبھی شیوۂ انساں میں کبھی
ہم بھی اک چیز تھے اس عالم امکاں میں کبھی
رنج میں رنج کا راحت میں ہوں راحت کا شریک
خاک ساحل میں کبھی موج ہوں طوفاں میں کبھی
دل میں بے لطف رہی خار تمنا کی خلش
نوک بن کر نہ رہا یہ کسی مژگاں میں کبھی
وار کرتے ہی بھرا زخم میں قاتل نے نمک
تیغ پر ہاتھ کبھی ہے تو نمکداں میں کبھی
خضر سے میں نے جو کیں جوش جنوں کی باتیں
ایسے نکلے کہ نہ آئے تھے بیاباں میں کبھی
اللہ اللہ رے تری شوخ بیانی اے داغؔ
سست اک شعر نہ دیکھا ترے دیواں میں کبھی
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |