ظلم سالے نے کیا یہ دل دلگیر کے ساتھ
ظلم سالے نے کیا یہ دل دلگیر کے ساتھ
رکھ دیا باندھ کے چھپر میں اسے تیر کے ساتھ
غیر کو کرکے رہا یار بھی تدبیر کے ساتھ
دے دیا سنکھیا تھوڑا سا اسے کھیر کے ساتھ
مرشدی جان کا منہ جس نے کیا تھا کالا
آج بھاگی ہے مرا دن بھی اسی پیر کے ساتھ
وصل کا نیم مزہ ہو گیا حاصل مجھ کو
رات بھر سویا لپٹ کر تری تصویر کے ساتھ
کی مقدر کی شکایت تو حرامی نے کہا
تیری تقدیر کا لکھا تری تقدیر کے ساتھ
اس طرح پھرتا ہوں اس شوخ کے پیچھے پیچھے
جیسے اتوار لگا رہتا ہے ہر پیر کے ساتھ
لے کے اس شوخ کو آرام سے چھت پر سویا
غیر کو ڈال دیا باندھ کے شہتیر کے ساتھ
پھر تو حاصل ہو مزہ وصل کا دونا مجھ کو
عقد ہو جائے اگر یار کی ہمشیر کے ساتھ
کمسنی ہی میں ہوا شوق اسیری پیدا
برسوں کھیلا ہوں میں دروازے کی زنجیر کے ساتھ
اس طرح جنبشیں دے دے کے نکالا اس کو
آ گیا دل بھی مرا کھینچ کے ترے تیر کے ساتھ
بومؔ صاحب کا یہی مشغلہ ہے آہٹ پر
دل کو بہلاتا ہے ہر دم تری تصویر کے ساتھ
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |