Jump to content

عاشقوں کی بات چیت

From Wikisource
عاشقوں کی بات چیت
by ناصر نذیر فراق دہلوی
319506عاشقوں کی بات چیتناصر نذیر فراق دہلوی

ہجر ہے آفت جان وصل بلائے دل ہےآدمی کے لئے ہر طرح غرض مشکل ہےپھول والوں کی سیر ہو چکی تھی۔ قطب صاحب کی لاٹ سے لے کر جھرنہ تک ساری مہرولی پڑی بھائیں بھائیں کر رہی تھی۔ سنسان، آدم نہ آدم زاد، جھرنہ میں پانی بھرا تھا اور جھرنہ کے کنارے ایک مور کھڑا ناچ رہا تھا۔ آم کے درخت پر ایک کوئل ایک پپیہا بیٹھا تھا۔کوئل اے بھائی مور! تم کیسے نڈر ہو، جھرنہ کے کونہ پر ایک آدمی بیٹھا ہے ایسا نہ ہو تمہارے دشمنوں کو ستائے۔مور تمہارا کہنا سچ ہے۔ آدمی بڑا ستاؤ ہے۔ مگر یہ آدمی ہمارا تمہارا بیری نہیں ہے۔ یہ بیچارہ مرنے سے پہلے مرچکا ہے۔ اور اسے بیماری نے چر لیا ہے۔ دیکھتی نہیں ہو، آنکھیں بند کئے بیٹھا ہے۔ ناک پکڑے دم نکلتا ہے۔ اسے اپنے تن بدن کا ہوش نہیں، تمہیں ہمیں کیا ستائے گا۔کوئل اچھا تو میں زمین پر اتر آؤں۔ مجھے آج تین دن پانی پئے ہو گئے۔ جھرنہ میں سے چار بوندیں پی لوں گی۔مور بوا کوئل تم شوق سے نیچے اتر آؤ۔ پانی پیو، نہاؤ، دھوؤ، چونچال ہوجاؤ۔ میں ذمہ لیتا ہوں۔ یہ کل سرا تمہیں کچھ نہ چھیڑےگا۔ مور کے کہنے سے کویل زمین پر اُتری اور اس کی دیکھا دیکھی پپیہا بھی جھرنہ کے کنارہ آ بیٹھا۔ دونوں جانور گرم مزاج ہیں۔ اس لئے دونوں کے دونوں جھرنہ میں خوب نہائے دھوئے اور مگن ہوئے۔ کویل نے کہا، بھائی مور! ندی ناؤ سنجوگ ہے۔ ہم کہاں تم کہاں، آج اتفاق کی بات کہ ہم تین بندے زمین پر اترے بیٹھے ہیں۔ یہ موقع پھر کبھی نہ ہوگا۔ ایک بات آپ سے پوچھنا چاہتی ہوں۔ بشرطیکہ آپ ٹھیک ٹھیک بتادیں اور چھپائیں نہیں۔مور جوبات کہنے کے قابل ہوگی تو میں نہیں چھپاؤں گا اور کہہ دوں گا۔کویل نہیں آکا یہ صحیح نہیں ہے کہ کہنے کی ہوگی تو کہہ دوں گی۔ یہ قول دیجئے کہ کہنے کی ہو یا نہ ہو، جو بات تم پوچھوگی، وہ بے دریغ کہہ دوں گا۔مور واہ بوا! یہ تو ہارنی ہرانی ہوئی۔ خیر تمہارا کہنا نیچے نہ ڈالوں گا۔ جو تم پوچھوگی بتا دوں گا۔کویل یہ آپ کے پروں میں جو سنہری پن اورنیلم پکھراج کا رنگ ہے کیونکر پیدا ہوا، اور یہ چمک دمک آپ کے سراپا میں کہاں سے آئی۔مور افسوس بہن کوئل! تم نے غضب کیا۔ مجھ سے قول لے لیا۔ نہیں کہتا ہوں تو جھوٹا بنتا ہوں۔ کہتا ہوں تو فرہاد اور مجنون مجھے پیٹ کا ہلکا کہیں گے، یہ کہہ کر مور نے ایک آہ کی۔ جس نے آس پاس کی پہاڑیوں کو لرزا دیا۔ مور کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔کویل اور پپیہا بھائی طاؤس شکوہ ہم دونوں بھی فرہاد اور مجنون کی مجلس کے بیٹھنے والے ہیں۔ جو ان کا رنگ ڈھنگ ہے، وہی ہمارا دین ایمان ہے۔ اگر آپ کچھ بھید کی بات ہمارے سامنے کہیں گے تو ہم اپنے عزیزوں کے سامنے بھی نہ کہیں گے۔ محفل سے باہر بات نہ جائے گی۔کویل کی باتوں نے مور کے زخمی دل پر مرہم کا اثر دکھایا۔ اور اس نے اپنی بپتا اس طرح شروع کی۔ حسن آباد میں عالم افروز نام ایک نازنین تھی۔ جس کی خوبصورتی اس درجہ کی تھی کہ چاند سورج اس کے ناخنوں میں پڑے چمکا کرتے تھے۔ اس کا بوٹا سا قد، اٹھتی جوانی، سر سے پاؤں تک نور ہی نور تھی۔ ریشمی لباس، پھولوں کا گہنا، ویسے تو طرح طرح کے زیور پہنتی تھی، مگر جھومر کا اور خاص کر جڑاؤ جھومر کا اسے بڑا شوق تھا اور جھومر اسے لگتا بھی ایسا بھلا تھا کہ جو دیکھتا اپنا کلیجہ پکڑ کر رہ جاتا۔ عالم افروز نے مجھے بچہ سا پالا تھا اور میرے ساتھ اسے بڑی محبت تھی۔ مجھے وہ گود میں لے کر بیٹھتی تھی۔ پیار کرتی تھی، میری گردن پر ہاتھ پھیرتی تھی۔ جب میں اس کی گود میں بیٹھا ہوتا تھا، تو اس کے جھومر کے پرکالہ میں ٹھونگیں مارا کرتا تھا۔ اور وہ کہا کرتی تھی غارتی اتنا چربانک نہ بن، یاد رکھنا اگر کسی دن تری ٹھونگ سے میرا جھومر میرے ماتھے سے سرک گیا تو تیری کیا سارے حسن آباد کی خیر نہ ہوگی۔عالم افروز کے اس کہنے سے مجھے بڑی حیرانی ہوئی کہ جھومر سرک جانے سے حسن آباد کی اور میری خیر کیوں نہ ہوگی۔ اس جھومر کے نیچے کیا بھید ہے۔ اور اس کے ساتھ ہی میرے دل میں یہ چاؤ پیدا ہوا کہ اس کے ماتھے سے کسی طرح جھومر سرکانا چاہئے۔ اور اب میں اس فکر میں پڑ گیا کہ کسی دن داؤ لگے اورمیں اس جھومر کا پرکالہ نازنین کے ماتھے سے سرکاؤں۔ اتفاق یہ ہوا کہ نازنین کہیں مہمان گئی تھی اور ساری رات جاگی تھی۔ گھر آئی تو اپنے کمرے میں دن کے وقت ایسی پڑکر سوئی کہ اسے اپنے آپ کی سدھ نہ رہی۔ میں سارے محل میں اہلا گہلا پھرا کرتا تھا، اور نازنین کا چہیتا تھا۔ مجھے کون روک سکتا تھا۔ میں بے دھڑک کمرہ میں گیا۔ میں نے دیکھا کہ نازنین چھپرکھٹ میں بے خبر پڑی سوتی ہے۔ اور چھپر کھٹ کے چاروں طرف لونڈیاں پڑی خراٹے لے رہی ہیں۔میں چپکے سے چھپرکھٹ میں پہنچ گیا اور میں نے چونچ میں پکڑ کر نازنین کے ماتھے پر سے جھومر کو سرکایا۔ جھومر سرکا تو میں نے دیکھا نازنین کے ماتھے پر لکھا ہے، ’’اللہ نور السموات والارض۔‘‘ اور نور کے نون کے نقطہ سے ایسی تجلی نکلی کہ وہ آنکھوں کے رستہ سے میرے تن بدن میں سما گئی۔ اور تمام تن بدن میرا نورانی ہو گیا۔ مگر مجھے اس تجلی نے بیہوش کر دیا اور جب مجھے افاقہ ہوا تو میں نے اپنے تئیں اس جہان کے جنگل میں دیکھا اور اپنے تمام پروں کو اس تجلی سے پُر نور اور رنگین۔ میرے خیال میں جہاں میں تھا فردوس بریں، اور وہ نازنین حورعین تھی۔اب میں اس مقام اور اس نازنین کی جدائی میں تڑپتا ہوں اورنالہ و فریاد کرتا ہوں۔ بے عقل انسان کہتا ہے مور جھنگارتا ہے، مور خوش آواز ہے۔ ساور میں شور و فغاں کرتا ہوں۔ اور قیامت تک اسی طرح شور و فغاں کرتا رہوں گا اور جدائی کی آگ میں جلتا رہوں گا۔ اب بہن کویل تم بھی اپنی رام کہانی سناؤ۔ کیونکہ تمہارا رات دن کا چیخنا چلانا کہے دیتا ہے کہ تم بھی ہجر کا صدمہ اٹھاتی ہو۔کویل بے شک میں اپنے یار کی جدائی میں بیکل رہتی ہوں۔ اسی کے دھیان میں میرے کلیجہ سے ہوک اٹھتی ہے۔ میرا حال آپ کے حال سے ملتا جلتا ہے۔ آپ جس شہر کو حسن آباد کہتے ہیں، مجھے اس کا نام جمالستان بتایا گیا تھا۔ آپ جس محبوب کو عالم افروز سے تعبیر کرتے ہیں، میں اسے جہاں افروز کہتی ہوں، اور وہی محل اور وہی سونے چاندی کی دیواریں، وہی باغ وہی چمن، وہی بہار وہی آبشار، وہی چہل پہل، وہی خوشی، وہی راؤ چاؤ، مجھے جہاں افروز نے پال پوس کر بڑا کیا۔ پرچھائیں کی طرح میں ہر وقت اس کے ساتھ رہتی تھی۔ میری جان اس پر جاتی تھی۔ مجھے اس کی زلف، اس کی چوٹی بہت پسند تھی۔ اور وہ میرے اس دیکھنے بھالنے کو سمجھ گئی تھی۔ اس نے مجھے جتا دیا تھا کہ میری چوٹی نہیں ہے، زہر اور قہر ہے۔ اگر تونے اسے چھولیا یا تو اس کے چھاؤں تلے آ گئی تو پھر تو جل کر فنا ہوجائےگی، اور تیرا پتہ بھی نہ لگےگا۔اس کے کہنے کا الٹا اثر ہوا۔ میں اس دھن میں الجھ گئی کہ کسی طرح ا س کی چوٹی کو ٹٹولوں۔ اس کا قاعدہ تھا کہ وہ سنگار کے وقت سب پرستاروں کو کمرے کے باہر بھیج دیتی تھی اور صرف مشاطہ اپنا کام کیا کرتی تھی۔ ایک دن وہ چمن میں بیٹھی چوٹی گندھوا رہی تھی اور لونڈیاں پہرہ پر کھڑی تھیں، میں نانصیب اوپر ہی اوپر اڑ کر وہاں پہنچی جہاں وہ سنگار کر رہی تھی۔ میں شمشاد کے پتوں میں چھپ کر بیٹھ گئی۔ میں نے دیکھا کہ جہاں افروز کرسی پر بیٹھی ہے۔ اس کے بال کھلے ہوئے ہیں اور اتنے لمبے ہیں کہ ہزاروں کوس تک چلے گئے ہیں اور سارے آسمان پر چھا گئے ہیں۔ جہاں زمین پر ان بالوں کا سایہ پڑا ہے، منوں مشک، عنبر، اگر، تگر، تیزپات، چھل چھبیلہ، ناگرموتھہ، لونگ ہزاروں قسم کی خوشبو کی چیزیں پیدا ہو رہی ہیں۔یکایک اس کے کھلے بالوں میں سے خوشبو کی لپٹ آئی، جو میرے حلق میں اتر گئی اور اس کی گرمی نے میرے سروپا کو پھونک دیا۔ میں غش کھاکر شمشاد کے درخت سے نہر میں گری اور جس وقت مجھے ہوش ہوا، تو میں نے دیکھا نہ جمالستان ہے نہ قصر فردوس ہے، نہ ہی جہاں افروز ہے، نہ اس کی کاکل تیرہ و تار ہے۔ بسا ندی زمین پر میں پڑی ہوں۔ میری پروں کی سفیدی جو سچے موتی اور برف کو مات کرتی تھی، آہ! سیاہی میں اندھیری رات کو مات کرتی ہے۔ وہ دن ہے اور آج کا دن ہے۔ ہزاروں برس سے یار کے فراق میں آہ و زاری کرتی ہوں، مگر یار عالم بالا پر اور میں مٹی کی زمین پر، وہاں تک میری آواز نہیں پہنچتی۔ چیخ چلا کر تھک جاتی ہوں، جب دم ٹھکانے ہوتا ہے تو پھر فریاد کرتی ہوں،خیالِ زلف دو تا میں نصیر پیٹا کرگیا ہے سانپ نکل تو لکیر پیٹاکرمور واہ بہن کویل تمہارا کیا کہنا۔ سچے عاشقوں میں سے ہو۔ تمہاری تعریف سارے جہان کے پرندے کرتے ہیں۔ اب بھائی پپیہا آپ رہ گئے ہیں۔ مناسب ہے کہ آپ اپنی بپتا سنادیں کہ آپ دن رات کیوں کراہتے ہیں، کسے چاہتے ہیں۔پپیہا بھلا میری مجال ہے کہ میں آپ جیسے عاشقوں کے پیشوا کے سامنے اپنا حال دل سناؤں۔ میں بھی اسی کا فرشوخ و شنگ کا مارا ہوا ہوں۔ صرف ناموں کا فرق ہے۔ اس شہر کا نام مجھے خوبستان اور نازنین کا نام نور افروز بتایا گیا۔ وہی پائیں باغ اور وہی قصر و ایوان اور وہی سامان تھے، جن کا ذکر آپ صاحبوں نے کیا ہے۔ نازنین کے ہاتھوں پر بیٹھا رہتا تھا۔ جب وہ ہنستی تھی تو اس کے منہ سے پھول جھڑتے تھے اور میں کھایا کرتا تھا۔ اور جب اسے پسینہ آتا تھا تو اس کے پسینہ کی بوندیں سچے موتی ہو جاتے تھے۔ میں کیا کہوں ان موتیوں اور پھولوں میں کیا مزہ تھا۔ صبح اٹھ کر وہ نازنین دو چاند اور دو سورج اور دو درجن تارے کھایا کرتی تھی۔ ایک دن اس کے چمچہ سے تارہ کا ایک بھورہ میز پر گرا۔ اور وہ بھورا میں نے کھا لیا۔ اس کا کھانا غضب ہوگیا۔ میں نے اِنّا للہ بکنا شروع کیا اور اس قدر چیخا چلایا اور غل مچایا کہ سارے محل کو سرپر اٹھا لیا۔وہ میرے دہاڑنے سے تنگ ہو گئی تو اس نے شہباز کوتوال کو بلاکر حکم دیا کہ اس کم ظرف چڑیا کو خاکستان فنا میں پہنچا دو۔ یہ نالائق وہاں پڑا چیخا کرےگا اور ہمارے کان تک اس کی آواز نہ پہنچے گی۔ شہباز نے مجھے انڈے کے قالب میں بند کر کے اس جہان میں پھینک دیا۔ جس وقت سے مجھے ہوش آیا، میری زبان تالو کو نہیں لگی۔ میں برابر نالہ و فغاں کئے جاتا ہوں۔ برسات کے موسم میں نکالا گیا ہوں۔ اس لئے برکھا رت آتی ہے تو مجھے وہ مقام زیادہ یادآتا ہے اور میں بے قرار و بیتاب بن جاتا ہوں۔ اور شور و فریاد سے آسمان سر پر اٹھاتا ہوں۔ایک میری عرض یہ ہے کہ آپ فرماتے ہیں، یہ آدمی بھی ہماری طرح عشق کا مارا ہوا ہے، تو اس کے منہ سے اس کی داستان سنوا دیجئے۔ مور نے کہا ضرور۔ یہ کہہ کر مور انسان کے پاس آیا۔ اور یہ بات زبان پر لایا۔ مولانا آپ کی تحریر و تقریر سے انسان بہت کچھ فائدہ اٹھا چکے ہیں۔ اب ہم پرندوں کے اوپر بھی عنایت فرمائیے اور چند کلمے عشق و حسن کے ہمیں بھی سنائیے، مگر جگ بیتی باتو ں کے ہم مشتاق نہیں۔ جو آپ پر گزری ہو اس میں سے کچھ فرما دیجئے۔فراق میاں مور! انسان وہی ہے جسے عشق ہو، جو محبت کے پھندے میں پھنسا ہو۔ تم تینوں پرندے بشر سے بڑھ کر ہو۔ کیونکہ تم میں روحانی جوہر ہے اور اسی جوہر کو تم میں چمکتا دمکتا دیکھ کراپنی عشق کی داستان تھوڑی سی سناتا ہوں۔ یاد رکھو کہ میرا اور سارے عالم کا محبوب وہی ایک ہے جس پر تم سب دیوانے ہو۔ اور تم نے تین عدد اسے سمجھا۔ میں بھی وہیں تھا۔ جہاں تم تھے۔ میں ہر دم نازنین کے ساتھ تھا۔ میں تمہیں اور تمہارے حرکات و سکنات کو دیکھتا تھا۔ مگر تم مجھے نہیں دیکھ سکتے تھے۔ کیونکہ اشرف المخلوقات نے مجھے چھپا رکھا تھا۔ وہ مجھے کہا کرتی تھی، میں صرف دیکھنے دکھانے کے لئے ہوں، ہاتھ لگانے کے لئے نہیں ہوں۔ اگر کسی دن تو نے بھول کر بھی میرے پنڈے کو چھو لیا، تو تیری جان کی خیر نہیں۔ اور دیدار قیامت پر جاپڑےگا۔میری کمبختی رات کا وقت تھا۔ وہ اپنے چھپر کھٹ پر پڑی سو رہی تھی۔ شمع کی روشنی میں اس کے جوبن کو گھور گھور کر دیکھ رہا تھا۔ اور صل علیٰ کہہ رہا تھا۔ یکایک سونے کی بدمستی میں اس کی کرتی ذرا اوپر کو ہو گئی۔ کرتی خود اونچی اور تنگ، نیند کے مسکوڑے نے رہا سہا پیٹ کھول دیا۔ مجھ خاکی نژاد کو اس کے دیکھنے کی تاب نہ ہوئی۔ میں نے گھبرا کر کرتی کو نیچے سرکانا چاہا۔ ہاتھ تونہیں لگا مگر ناخن لگ گیا اور آن کی آن میں ہم نے اپنے تئیں اس اندھیرے جہان میں پایا۔ کف افسوس ملتا ہوں اور فراق یار میں روتا ہوں۔


This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.