عاشقی جاں فزا بھی ہوتی ہے
Appearance
عاشقی جاں فزا بھی ہوتی ہے
اور صبر آزما بھی ہوتی ہے
روح ہوتی ہے کیف پرور بھی
اور درد آشنا بھی ہوتی ہے
حسن کو کر نہ دے یہ شرمندہ
عشق سے یہ خطا بھی ہوتی ہے
بن گئی رسم بادہ خواری بھی
یہ نماز اب قضا بھی ہوتی ہے
جس کو کہتے ہیں نالۂ برہم
ساز میں وہ صدا بھی ہوتی ہے
کیا بتا دو مجازؔ کی دنیا
کچھ حقیقت نما بھی ہوتی ہے
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |