عاشق حق ہیں ہمیں شکوۂ تقدیر نہیں
Appearance
عاشق حق ہیں ہمیں شکوۂ تقدیر نہیں
پیچ قسمت کا کم از زلف گرہ گیر نہیں
بس کہ آہوں سے اسیروں کے بہے لخت جگر
بے نگیں آج کوئی خانۂ زنجیر نہیں
کشتنی پاس تو آ جائے مگر تیرے پاس
نیزہ و تیر ہی ہے دشنہ و شمشیر نہیں
سب کے اس عمر میں ہو جاتے ہیں ایسے ہی حواس
تجھ سے کچھ شکوہ ہمیں اے فلک پیر نہیں
گھر کی ویرانی کو کیا روؤں کہ یہ پہلے سے
تنگ اتنا ہے کہ گنجائش تعمیر نہیں
آدمیت نہیں تجھ میں یہ عدو کی ہے غرض
یوں پری کہنے میں مانا تری تحقیر نہیں
جنبش ابرو کو ہے لیکن نہیں عاشق پہ نگاہ
تم کماں کیوں لئے پھرتے ہو اگر تیر نہیں
ہمت مرغ سحر خوان کا ہوں قائل کہ اسے
نالے سے زمزمہ مقصود ہے تاثیر نہیں
اپنے استاد کے انداز پہ میرا ہے کلام
مجھ کو ناظمؔ ہوس پیروئی میرؔ نہیں
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |