عاشق دعا کرے تو یہی اک دعا کرے
عاشق دعا کرے تو یہی اک دعا کرے
دو دل ملیں تو پھر نہ جدا ہوں خدا کرے
میری طرح تجھے بھی خدا مبتلا کرے
میری نگاہ تیری نظر ہو خدا کرے
دل ہو بتوں کے عشق سے خالی خدا کرے
وہ بے نیاز اب اسے بے مدعا کرے
دل جس کو چاہتا ہو اسی کا گلہ کرے
یہ عشق ہے تو ہم کو نہ آئے خدا کرے
وہ دو دلوں کو ایک کرے یا جدا کرے
سب اس کے ہاتھ میں ہے جو چاہے خدا کرے
ان بے وفا بتوں سے طبیعت اچٹ گئی
اب تو خدا سے اپنی لگے لو خدا کرے
ہم بھی وفا کریں گے ہے جب تک کہ دم میں دم
وہ بھی جفا سے باز نہ آئے خدا کرے
تو میری شکل میں ہو تو میں تیری شکل میں
یوں میرا تیرا وصل ہو اے بت خدا کرے
آنکھیں ملی ہوں رونے ہی کے واسطے جسے
وہ اپنے حال پر جو نہ روئے تو کیا کرے
دیتی نہیں جواب یہ پتھر کی مورتیں
کیا بے زباں بتوں سے کوئی التجا کرے
کہتے ہیں دیکھ کر مجھے اکبرؔ بتان ہند
گمراہ ہے یہ راہ پر آئے خدا کرے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |