Jump to content

عاشق زار ہوں جز عشق مجھے کام نہیں

From Wikisource
عاشق زار ہوں جز عشق مجھے کام نہیں (1866)
by شاہ آثم
304436عاشق زار ہوں جز عشق مجھے کام نہیں1866شاہ آثم

عاشق زار ہوں جز عشق مجھے کام نہیں
طالب کفر نہیں تابع اسلام نہیں

غم نہیں کچھ بھی خرابی سے ہے ہم مستوں کو
گردش جام ہے یہ گردش ایام نہیں

قتل عاشق کے لیے ایک ادا بس ہے تری
بسمل عشق کو کچھ حاجت صمصام نہیں

کیا ہوا ابر بھی ہے مے بھی ہے ساغر بھی ہے
ہے یہ سب ہیچ اگر ساقیٔ گلفام نہیں

دیکھ کر مجھ کو تجھے کیوں ہے تحیر ناصح
مشرب عشق ہے یہ مذہب اسلام نہیں

خانۂ ناز ہے وہ بلکہ چراغ مردہ
دل کے آئینہ میں گر روئے دل آرام نہیں

عشق خادم سے ہوا ہے دل آثمؔ معمور
اس لیے دین و دنیا سے اسے کام نہیں


This work was published before January 1, 1929 and is anonymous or pseudonymous due to unknown authorship. It is in the public domain in the United States as well as countries and areas where the copyright terms of anonymous or pseudonymous works are 100 years or less since publication.