عالم میں اگر عشق کا بازار نہ ہوتا
Appearance
عالم میں اگر عشق کا بازار نہ ہوتا
کوئی کسی بندہ کا خریدار نہ ہوتا
ہستی کی خرابی نظر آتی جو عدم میں
اس خواب سے ہرگز کوئی بیدار نہ ہوتا
کہتا ہے تجھے خاک نہ دوں غیر اذیت
یہ دل میں اگر تھی تو مرا یار نہ ہوتا
معلوم کسے تھی یہ تری خانہ خرابی
میں جانتا ایسا تو گرفتار نہ ہوتا
عالم کو جلاتی ہے تری گرمی مجلس
مرتے ہم اگر سایۂ دیوار نہ ہوتا
اے شیخ اگر کفر سے اسلام جدا ہے
پس چاہیے تسبیح میں زنار نہ ہوتا
ظالم مرے حاسد کی تو شادی تھی اسی میں
یعنی مجھے در تک بھی ترے بار نہ ہوتا
دیتے تری مجلس میں اگر راہ فغاںؔ کو
اس شخص سے ہرگز کوئی بے زار نہ ہوتا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |