عدم کا خلا
ہوا کے جھونکے ادھر جو آئیں تو ان سے کہنا
یہاں کوئی ایسی شے نہیں جسے وہ لے جائیں ساتھ اپنے
یہاں کوئی ایسی شے نہیں جسے کوئی دیکھ کر یہ سوچے
کہ یہ ہمارے بھی پاس ہوتی
یہاں کوئی راہ رو نہیں ہے نہ کوئی منزل
یہاں اندھیرا نہیں اجالا نہیں کوئی شے نہیں ہے
گزرتے لمحوں کے آتشیں پاؤں اس جگہ پے بہ پے رواں ہیں
ہر ایک شے کو سجھاتے جاتے ہر ایک شے کو جلاتے جاتے مٹاتے جاتے
ہر ایک شے کو سجھاتے جاتے کہ کچھ نہیں ہست سے بھی حاصل
ہوا کے جھونکے ادھر جو آئیں تو ان سے کہنا
یہ سب معابد یہ شہر گاؤں
فسانۂ زیست کے نشاں ہیں
مگر ہر اک در پہ جا کے دیکھا ہر ایک دیوار روند ڈالی ہر ایک روزن کو دل سمجھ کر
یہ بھید جانا
گزرتے لمحوں کے آتشیں پاؤں ہر جگہ پے بہ پے رواں ہیں
کہیں مٹاتے کہیں مٹانے کے واسطے نقش نو بناتے
حیات رفتہ حیات آئندہ سے ملے گی یہ کون جانے
ہوا کے جھونکے ادھر جو آئیں تو ان سے کہنا
ہر جگہ دام دوریوں کا بچھا ہوا ہے
ہر اک جگہ وقت ایک عفریت کی طرح یوں کھڑا ہوا ہے
کہ جیسے وہ کائنات کا عکس بے کراں ہو
کبھی فریب خیال بن کر کبھی کبھی بھول کر شعور جمال بن کر
شکار کی ناتواں نظر کو سجھا رہا ہے
ہر ایک شے سے مرا نشان عدم عیاں ہے
عدم بھی دریوزہ گر ہے میرا مرے ہی بل پر رواں دواں ہے
ہوا کے جھونکے ادھر جو آئیں تو ان سے کہنا
فسانۂ زیست کا جھلستا ہوا اجالا بھی مٹ چکا ہے
مگر ہو مٹ کر کوئی اندھیرا نہیں بنا ہے
کہ اس جگہ تو کوئی اندھیرا نہیں اجالا نہیں یہاں کوئی شے نہیں ہے
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |