عدوئے جاں بت بے باک نکلا
عدوئے جاں بت بے باک نکلا
بڑا قاتل بڑا سفاک نکلا
صنوبر قد کشی میں خاک نکلا
وہ سرو قد چمن کی ناک نکلا
فرشتوں کو کیا مات آدمی نے
قیامت کا یہ مشت خاک نکلا
اڑا دی قید مذہب دل سے ہم نے
قفس سے طائر ادراک نکلا
محبت سے کھلا حال زمانہ
یہ دل لوح طلسم خاک نکلا
نکل آئی فلک کی دور سے روح
بھنور سے خوب یہ تیراک نکلا
وہ پژمردہ تھا فصل گل جو آئی
چمن سے صورت خاشاک نکلا
شکار افگن میں دل کو جانتا تھا
غزال بستۂ فتراک نکلا
مرے ہم آرزو ان کی بر آئے
ہمارا حوصلہ کیا خاک نکلا
جنوں میں باغ عالم کو جو دیکھا
عجب صحرائے وحشت ناک نکلا
نکلتی ہے بدن سے جس طرح روح
ترے گھر سے میں یوں غم ناک نکلا
تمہارے قد سے کچھ کم سرو ٹھہرا
صنوبر تو بہت کاواک نکلا
ہماری سادہ لوحی کام آئی
حساب روز محشر پاک نکلا
ترارہ پھرتے ہی پہنچا عدم میں
سمند عمر کیا چالاک نکلا
بھرے لڑکوں نے دامن پتھروں سے
جہاں تیرا گریباں چاک نکلا
مٹایا دور ساقی محتسب نے
عدو جمشید کا ضحاک نکلا
صباؔ ہم حشر کو مجرم جو نکلے
شفاعت کو شہ لولاک نکلا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |