عدو غیر نے تجھ کو دلبر بنایا
عدو غیر نے تجھ کو دلبر بنایا
کوئی جوڑ مجھ پر مقرر بنایا
کوئی سرو رکھتا نہ تھا راست یہ ہے
ترے قد کو میں نے صنوبر بنایا
کیا میں نے جلاد اسے اپنے حق میں
ستم سہتے سہتے ستم گر بنایا
نہ گنتا تھا کوئی حسینوں میں او بت
تجھے دے کے دل میں نے دلبر بنایا
شکر لب کہا میں نے کڑوے ہوئے تم
عبث منہ کو مجھ سے ستم گر بنایا
عناصر سے خالق نے خلقت بنائی
تجھے نور سے حور پیکر بنایا
ترا عاشق زار روز ازل سے
بنایا مجھے او ستم گر بنایا
بھلا کیا جواب اس کا دے گا تو قاتل
اگر خون کا میں نے محضر بنایا
مری عقل حیراں ہے بار الہا
طلسمات دنیا کو کیوں کر بنایا
پڑی جان اڑنے لگا میرے عیسیٰ
روئی کا جو تو نے کبوتر بنایا
ہمہ وقت ممکن نہیں وصل دلبر
ہنسی کھیل کیا جان مضطر بنایا
وہ ہوں صاحب ظرف ہرگز نہ چھلکا
اگر خاک کا میری ساغر بنایا
خیال دہن نے کیا تنگ مجھ کو
کمر کے تصور نے لاغر بنایا
گھلے سوز فرقت میں اس شمع رو کے
یہ حال اپنا کیوں رندؔ جل کر بنایا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |