عشق سے کچھ کام نے کچھ کوئے جاناں سے غرض
Appearance
عشق سے کچھ کام نے کچھ کوئے جاناں سے غرض
گل سے مطلب ہے نہ کچھ خار بیاباں سے غرض
عشق کی سرکار کو بے باک بالکل کر چکے
اب نہ کچھ زنجیر سے مطلب نہ زنداں سے غرض
کس سے ہم جھگڑیں نہیں اپنا کسی ملت میں میل
عشق کے بندے کو کیا گبر و مسلماں سے غرض
عالم وحشت میں عریانی کا جامہ چاہئے
کام ہاتھوں کو گریباں سے نہ داماں سے غرض
تیری نظروں میں نہ ٹھہرے گا یہ روئے آفتاب
تجھ کو اے اخترؔ نہ ہوگی ماہ تاباں سے غرض
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |