Jump to content

عشق میں دوستو مزا بھی ہے

From Wikisource
عشق میں دوستو مزا بھی ہے (1895)
by رنج حیدرآبادی
324367عشق میں دوستو مزا بھی ہے1895رنج حیدرآبادی

عشق میں دوستو مزا بھی ہے
سخت آفت بھی ہے بلا بھی ہے

بوسہ تو مل چکا مجھے سرکار
میری اک اور التجا بھی ہے

مجھ سا عاشق کہو خدا کی قسم
کوئی دنیا میں دوسرا بھی ہے

وعدہ کر کے بتو نہ ہم سے پھرو
کچھ تو دل میں ڈرو خدا بھی ہے

تیرے اس جور کی ہے کچھ حد بھی
اس ستم کی کچھ انتہا بھی ہے

آج جاتا ہوں اس کے کوچے کو
ساتھ میرے مری قضا بھی ہے

مجھ سے کہتے ہیں اب ترے دل میں
اور کوئی مرے سوا بھی ہے

ایسے معشوق ہوتے ہیں کم یاب
با وفا بھی وہ با حیا بھی ہے

میں نے چھیڑا جو بزم میں تو کہا
بے حیا تجھ کو کچھ حیا بھی ہے

سچ کہو رنجؔ سا کوئی شاعر
حیدرآباد میں ہوا بھی ہے


This work was published before January 1, 1929 and is anonymous or pseudonymous due to unknown authorship. It is in the public domain in the United States as well as countries and areas where the copyright terms of anonymous or pseudonymous works are 100 years or less since publication.