Jump to content

عشق میں کچھ نہیں دوا سے نفع

From Wikisource
عشق میں کچھ نہیں دوا سے نفع
by میر تقی میر
315335عشق میں کچھ نہیں دوا سے نفعمیر تقی میر

عشق میں کچھ نہیں دوا سے نفع
کڑھیے کب تک نہ ہو بلا سے نفع

کب تلک ان بتوں سے چشم رہے
ہو رہے گا بس اب خدا سے نفع

میں تو غیر از ضرر نہ دیکھا کچھ
ڈھونڈھو تم یار و آشنا سے نفع

مغتنم جان گر کسو کے تئیں
پہنچے ہے تیرے دست و پا سے نفع

اب فقیروں سے کہہ حقیقت دل
میرؔ شاید کہ ہو دعا سے نفع


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.