عشق ہرچند مری جان سدا کھاتا ہے
Appearance
عشق ہرچند مری جان سدا کھاتا ہے
پر یہ لذت تو وہ ہے جی ہی جسے پاتا ہے
آہ کب تک میں بکوں تیری بلا سنتی ہے
باتیں لوگوں کی جو کچھ دل مجھے سنواتا ہے
ہم نشیں پوچھ نہ اس شوخ کی خوبی مجھ سے
کیا کہوں تجھ سے غرض جی کو مرے بھاتا ہے
بات کچھ دل کی ہمارے تو نہ سلجھی ہم سے
آپی خوش ہووے ہے پھر آپ ہی گھبراتا ہے
جی کڑا کر کے ترے کوچے سے جب جاتا ہوں
دل دشمن یہ مجھے گھیر کے پھر لاتا ہے
راہ پینڈے کبھو اس شوخ کے تئیں ہم سے بھی
دید وا دید تو ہوتی ہے جو مل جاتا ہے
دردؔ کی قدر مرے یار سمجھنا واللہ
ایسا آزاد ترے دام میں یوں آتا ہے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |