علامہ شبلی کا ماہوار علمی رسالہ
آج چھ کروڑ مسلمان تو خیر، اسٹریچی ہال کی مقتدر جماعت کے پاس بھی کوئی علمی رسالہ نہیں جو معلومات غائرہ اور انکشافات عصریہ کے لحاظ سے قوم کے دماغی افق کی توسیع کر سکتا ہو، تہذیب الاخلاق سلسلۂ جدید، سرسید کا نفس واپسیں تھا جو ان کی طرح ہمیشہ کے لئے ہم سے رخصت ہو گیا اور ان کا زندہ کرنا اصول طبعی کے لحاظ سے ناممکن ہے۔ ’’ہر لالۂ پژ مردہ نخواہد بشگفت۔‘‘
لیکن افسوس ہے کہ ہم جواں مرگ معارفؔ کو جو تہذیبؔ الاخلاق کا خلف صالح تھا، زندہ نہ رکھ سکے۔ معارف کی چار سالہ جلدوں کو دیکھئے، صرف یہ ہی نہیں کہ وہ یورپ کے اچھے سے اچھے علمی پرچوں سے برا نہیں، ’’اصحاب المعارف‘‘ نے جس طرح داد تحقیق دی ہے اور عربی و ٹرکی لٹریچر کے اجزاء جس شائستگی اور قابلیت کے ساتھ اردو میں لئے گئے ہیں، لکھنے والوں کا خاص حصہ ہے۔ میرا خیال ہے موجودہ رفتار دماغی کے ساتھ ہم مدتوں اس قابل نہیں ہوں گے کہ اس قسم کے مضامین کی وقعت کا کوئی صحیح اندازہ کرسکیں ۔ لائق لکھنے والوں نے علی گڈھ کی نئی پیداوار کی طرح کوئی ’’زبان غیر‘‘ نہیں لکھی ہے بلکہ جس وسیع تمدن کا خاکہ کھینچا گیا ہے، معلوم ہوتا ہے کہ اس کی اصلی زبان معارف کی زبان تھی۔
لیکن ان مخصوص اوصاف کے ساتھ بھی نتیجہ کیا ہوا، دو سافل تک یہ پرچہ ایک رئیس کی سرپرستی میں رئیسانہ حیثیت سے نکلا، نفس مضامین، کاغذ، تقطیع، غرض پرچہ کے تمام اجزائے ترکیبی ’’کلاسیکل‘‘ تھے، دو سال کے بعد اس نے صورت بدلی، اقامت بدلی، آخر آخر اس کی ہیئت ظاہری لکھنؤ کے بازاری پرچوں سے کچھ ہی اچھی تھی، محلوں کا رہنے والا جھونپڑے میں کیا پنپتا، پانی پت کی مٹی تھی ٹھکانے لگی، مولوی وحید الدین سلیم کو اپنے طبع زاد نونہال کا سسک سسک کر جان دینا آج تک یاد ہوگا، بہرحال اس لٹریری حادثہ کا ذمہ دار کون ہے؟ یقینی مسلمان! لیکن چھوٹی امت نہیں بلکہ کچھ وہی روادار لوگ جو اپر انڈیا کے طبقہ اعلیٰ میں ہیں اور زیادہ تر ’’ینگ علی گڈھ‘‘ پارٹی، جس کی زندگی میں صحیح مذاق علمی کا اس وقت پتہ نہیں۔
’’البشیر‘‘ مسلمانان ہندوستان کو بحیثیت ایک ’’فارن‘‘ قوم کے دیکھنا چاہتا ہے، لیکن یہ خیال قہقہہ کے لائق ہے۔ قومیت یعنی ’’نیشنلٹی‘‘ کے جتنے لوازم ہیں، میرا خیال ہے یہاں کبھی حاصل نہیں ہوں گے۔ اس لئے مجموعی ترقی کے لئے متعدد صدیاں بھی کافی نہیں، زیادہ سے زیادہ یہ ہو سکتا ہے کہ چند منتخب افراد کو کسی ایک مرکز خیال کا محیط بنایا جائے اور یہی لوگ میرے مخاطب صحیح ہیں جن کی غذائے دماغی کے لئے ضرورت تھی کہ کانفرنس ’’معارف‘‘ کو متنبیٰ کرلیتی بولایت ’’وحید الدین سلیمؔ‘‘ اور ’’رشید احمد سالمؔ‘‘ جن کے قلم کے سایہ میں یہ ہونہار معصوم پھولتا پھلتا، لیکن میں بھولا، کانفرنس ایک عملی اور کاروباری جماعت ہے یا کم سے کم ہونا چاہتی ہے اور اس لحاظ سے اس کا وجود جدت سے خالی نہیں کہ یہ علم سے پہلے عمل چاہتی ہے، جس کی طرف بہ زعم خود اسی نے مفید پیش قدمیاں کی ہیں۔
’’لٹریری‘‘ حیثیت سے یہ اتنی گری ہوئی ہے کہ امید نہیں کوئی علمی تحریک اس کی تعمیلات کے ’’فائل‘‘ میں داخل ہوسکے۔ شواہد لیجئے، رپورٹیں وقت پر نہیں شائع ہوتیں، جو نکلتی ہیں، وہ بھی ’’لارڈ کرزن‘ کے ضوابط اختصار کے زیر اثر، جس کا نتیجہ یہ ہے کہ مہینوں کے انتظار کے بعد بھی پڑھنے کو قریب قریب کچھ نہیں ملتا۔
’’اسپیچیں‘‘ عموماً زبانی ہوتی ہیں اور یہ امر بولنے والے کے رحم پر چھوڑ دیا جاتا ہے کہ اظہار فصاحت کے بعد وہ پھر کبھی ضبط تحریر میں لائی جائیں، جو بہت زیادہ نمودئے ہیں، ان کا استغنا اس قدر بڑھا ہوا ہے کہ آزادی خیال سرے سے قید تحریر پسند نہیں کرتی، مختصر یہ کہ رپورٹ اتنی مفصل اور دلچسپ نہیں ہوتی، جس کی امید ایک ایسی ’’ہیئت الاجتماعیہ‘‘ (سوسائٹی) سے ہو سکتی تھی جو کڑوروں مسلمانوں کی پیشوائے علمی ہو، شائقین کانفرنس میں ایسوں کی تعداد کم نہیں ہے، جن کو شرکت کا موقع نہیں ملتا، اور وہ صرف اس خیال سے ممبر ہوتے ہیں کہ سال کے سال مکمل رپورٹ ان کے ہاتھوں میں ہو اور وہ تعلیم یافتہ حضرات کے خیالات یعنی اردو لٹریچر کے بہتر سے بہتر نمونے سے گھر بیٹھے لطف اٹھا سکیں، یہ توقع کہاں تک پوری ہوتی ہے، میں بانیان کانفرنس کے سلیقۂ احساس پر چھوڑتا ہوں۔
بولنے والوں میں صرف ایک شخص ہے جو اپنے دماغی نتائج کی حفاظت کرتا ہے اور تاجرانہ پالیسی کو بھی نظرانداز نہیں ہونے دیتا، یعنی علامہ نذیر احمد۔ یہ کانفرنس کے سامنے پکی پکائی ہنڈیا پیش کرتے ہیں، کچی رسوئی کے شائق نہیں اور اس حیثیت سے ہم ان کے ممنون ہیں، لیکن ان کے پچھلے لکچر اس قدر پھیکے اور بدمزہ ہوئے ہیں کہ آج تک بے نمکی بھولی نہیں ہے۔ ایک پچھلے موقع پر انھوں نے جو کچھ کہا وہ ان کی اچھی خاصی ’’اٹوبیا گرفی‘‘ تھی جس میں ایک سانس میں وہ تمام ذاتی واقعات دہرائے گئے تھے، جن کی تفصیل سے متعدد موقعوں پر جستہ جستہ یہ اور لکچروں میں بھی بالکل نہیں چوکے۔ مشرقی شاعر اسے قند مکرر کہے گا، مگر چچوڑی ہوئی ہڈیاں بار بار منھ میں ناگوار سا ہوتا ہے۔
ان کی گھبراہٹ سے معلوم ہوتا ہے جیسے ان کو مایوسی ہو کہ ان کے بعد ان کے واقعات زندگی کا سمیٹنے والا کوئی نہیں ہوگا، لکچر کا زیادہ تر حصہ وہی فوائد قرآنی کے متعلق ہوتا ہے جو ان کے ترجمہ کے ساتھ مخصوص ہیں اور جن کی الہامی تکمیل ان کی ہستی کی علت غائی ہے، مختصر یہ کہ بعض فاضلوں کی قوت کا بہترین استعمال نہیں ہوتا، یعنی ملک کے اچھے لکھنے والوں کو خاص سبجیکٹ نہیں دیے جاتے، نہ علمی مضامین کے لئے کسی قسم کے معاوضہ کی ضرورت سمجھی جاتی ہے۔
سر سید کے بعد اردو لٹریچر کی جان کے لالے پڑ گئے ہیں اور میں نہیں جانتا کانفرنس نے بالذات یا بالوسائط کہاں تک ان حریفانہ کوششوں کی مقاومت کی ہے جو اس معصوم زبان کو صفحۂ ہستی سے معدوم کرنا چاہتی ہیں ۔ ایک یادگار موقع پر نہایت گرم جوشی سے کہا گیا تھا کہ ’’اردو کا جنازہ ہم دھوم سے اٹھائیں گے۔‘‘ لیکن موجودہ سرد مہری اور بے التفاتی تو یہ کہہ رہی ہے کہ اگر سرپرستوں اور وارثوں کے یہی طور طریقے ہیں تو ایک دن طاعونی لاش کی طرح عالم کس مپرسی میں بیچاری چپ چپاتے پیوند خاک کردی جائےگی، بہتیرے روپیٹ کر بیٹھ رہیں گے، کچھ ایسے ہیں جو مصلحت یعنی اپنی کمزوریوں کے لحاظ سے آنسو پی جائیں گے، بہرحال لٹریچر کی حیثیت سے کانفرنس بہیئت مجموعی اس کی مصداق ہورہی ہے،
بہت شور سنتے تھے پہلو میں دل کا
جو چیرا تو اک قطرۂ خوں نکلا
اس لئے ہم کو بانیان کانفرنس اورعلی گڈھ کی نئی پیداوار سے سردست قطع نظر کر لینی چاہئے، کیونکہ یہ جس قدر ترقی کریں گے لکھنے پڑھنے کا مشغلہ چھوٹتا جائےگا اور ایک زمانہ آئےگا کہ علی گڈھ کی ’لٹریری ڈائری‘‘ بالکل سادی اور کوری ہوگی، اظہار خیال اور استنباط نتائج کے لئے صرف علم الاعداد کافی ہوگا۔
اب ہم کو یہ دیکھنا ہے کہ اور جگہ کیا ہو رہا ہے۔ علی گڈھ کے حریف کیمپ یعنی ’’ندوۃ العلماء‘‘ پر میں اس وقت کوئی تفصیلی نظر ڈالنا نہیں چاہتا، نہ مجھ کو اس سے بحث ہے کہ عربی لٹریچر کی تجدید جہاں تک آج کل کی ترقیات کے مؤثرات کا تعلق ہے، مذہب کی طرح اسباب ثنویہ میں محسوب ہونے کے لائق ہے۔ ہاں یہ نہیں مانتا کہ علی گڈھ پارٹی ’’ندوۃ العلماء‘‘ کو رقابت کی نگاہ سے دیکھتی ہے، ممکن ہے بعض اسے بے وقت کی شہنائی سمجھتے ہوں، لیکن نئے خیال والوں کا حصہ غالب عربی کی تعلیم کو صرف’’زبان ثانی‘‘ کی حیثیت سے پسند کرتا ہے، یعنی مغربی علوم کی تکمیل کے ساتھ ضمناً جس سے غالباً مقصود یہ ہوگا کہ ’’جامع ازہر‘‘ کی طرح قوم کا کوئی حصہ غیر ضروری اور متروک مشاغل کے لئے وقف نہ ہو جائے، اور جو کچھ ہو صرف مستشرقانہ حیثیت سے، جس میں قدیم لٹریچر کے باقیات الصالحات کی تجدید مقصود بالذات نہیں ہوتی، بلکہ کوئی اہم غایت ہے جس کے لئے کرم خوردہ اوراق کی الٹ پھیر کی درد سری گوارا کی جاتی ہے۔
مختصر یہ کہ نیا گروہ ایک منٹ کے لئے بھی ان مسلمات سے علیحدہ ہونا نہیں چاہتا، جو ہماری موجودہ اور آئندہ زندگی کا طے شدہ عنوان ہیں، لیکن میں اس اضافی بحث سے علیحدہ ہوکر سردست ’’الندوہ‘‘ پر ایک نظر ڈالنا چاہتا ہوں جو واجب الادب علماء کا ایک ماہوار علمی رسالہ ہے اور جس کے ایڈیٹر یا روح رواں جو کچھ کہئے، ’’علامہ شبلی‘‘ ہیں۔ ’’الندوہ‘‘ سے جو کچھ دلچسپی ہے، اسی حیثیت سے، کیونکہ شبلی گو آج کل ہم سے ٹوٹ کر وقف اغیار ہو رہے ہیں، تاہم روابط سابقہ کی بنا پر یہ قطعاً ہماری چیز ہیں اور ہم برسوں کے گہرے تعلقات کے بعد ان سے دست بردار نہیں ہو سکتے، لیکن سچ یہ ہے کہ ان کی ’’جامعیت‘‘ نئے پرانے خیال والوں کی ملک مشترک ہے، اس لئے اس کی ضرورت نہیں کہ یہ کسی ایک کے ہو رہیں۔
پرچہ سے پہلے فاضل ایڈیٹر پرکچھ ریویو کرنا منظور ہے، مگر یہ اس قدر مشکل کام ہے کہ سمجھ میں نہیں آتا کہاں سے شروع کروں ۔ اردو لٹریچر کے پیدا کرنے والے تھوڑے ہیں، ان میں بھی تھوڑے ہی ایسے ہیں جو آج کل کے وسیع معیار قابلیت کے لحاظ سے اہل قلم کی صف اول میں شامل ہونے کے لائق ہوں ۔ سرسید سے قطع نظر کرنے کے بعد جن کو باستحقاق اولیت کا فخر حاصل ہے، میرا خیال ہے، شبلی بلحاظ فن صرف ہندوستان نہیں بلکہ تمام اسلامی دنیا میں کسی سے دوسرے درجہ پر نہیں ہیں، اس کو میری قاصر النظری یا علمی فرومایگی پر نہ محمول کیجئے۔ فلسفۂ تاریخ جو آج کل تمام علوم میں سرفہرست ہے ایک مستقل فن ہو گیا ہے اور اس قدر اہم ہے کہ دنیا کے بڑے بڑے فاضل مؤرخانہ موشگافیوں کو بہترین مشغلہ ہستی سمجھتے ہیں، مصری اور ٹرکی لٹریچر میں تاریخی مذاق جس حد تک موجود ہے، میں اس سے بیگانہ نہیں ہوں۔
مجھ کو معلوم ہے کہ دونوں زبانیں خاص کر اول الذکر اس قدر مغربیت سے مانوس ہو گئی ہے کہ وہاں کے روشن خیال علماء مغربی طرز تحریر کی خصوصیات کے ساتھ عربی اور ترکی زبانوں میں نہایت شائستگی سے داد سخن دے رہے ہیں، لیکن جن مضامین پر ان کے ہاں منقولانہ اور معقولانہ سرگرمی سے طبع آزمائیاں ہورہی ہیں، وہ شبلی کے ہاں دست فرسودہ اور مسائل ابتدائی ہیں جن کو فاضل مؤرخ کی سرسری جنبش قلم، مدت ہوئی ایک سے زیادہ موقعوں پر طے کر چکی ہے۔
ملک کے لئے یہ کچھ کم فخر کی بات نہیں ہے کہ مصر کے مشہور رسالہ ’’الہلال‘‘ کا نامور ایڈیٹر علامہ ’’جرجی زیدان‘‘ اپنی تاریخ ’’تمدن اسلام‘‘ میں جو متعدد جلدوں میں ختم ہوگی، علامہ شبلی کی تحقیقات سے بے نیاز نہ رہ سکا اور اس نے سنداً اقتباسات کئے۔ بہرحال ہم میں صرف شبلی ایسا شخص ہے جو بلحاظ جامعیت اور وسیع النظری مؤرخانہ تدقیق اور مذاق فن کی حیثیت سے آج یورپ کے بڑے سے بڑے مؤرخ سے پہلو بہ پہلو ہو سکتا ہے۔
یورپ کو شکایت ہے کہ مسلمانوں میں متقدمین بلکہ متاخرین میں بھی کوئی شخص ایسا نہیں ہوا جسے صحیح معنوں میں اگر حفظ روایات سے قطع نظر کی جائے تو مؤرخ کہنا درست ہو، یعنی استقصائے روایات کے سلسلہ میں کسی نے اپنے ماخذوں کی چھان بین نہیں کی، نہ غیرمرتب مواد سے کسی دور اور کسی زمانہ میں ایسے نتائج حاصل کئے گئے جن میں طبیعت انسانی کے اقتضاء، زمانہ کی خصوصیتیں منسوب الیہ کے حالات اور دیگر قرائن عقلی سے مدد لی گئی ہو۔
ابن خلدون کا نام بار بار لیا جاتا ہے جس نے تاریخ پر فلسفہ کا رنگ چڑھانا چاہا مگر خود اس کی تاریخ بتاتی ہے کہ اس کے خیالات قوت سے فعل میں نہ آ سکے، یہ بالکل صحیح ہے، لیکن آج ہم بیسویں صدی کے ایک فاضل مؤرخ کو پیش کرتے ہیں جس کا دائرۂ معلومات اس قدر وسیع ہے کہ وہ اپنے سلسلۂ تحقیقات میں صدیوں کی فروگذاشت کی تلافی کرتا جاتا ہے اور اگر وقت نے مساعدت کی اور اس کا تخیل پورا ہو سکا تو تاریخ اسلامی کے مہمات مسائل ایک ایک کرکے طے کر دئے جائیں گے۔
کہا جاتا ہے کہ دلی اور لکھنؤ کے گوشوں میں اب بھی بہتیرے علماء پڑے ہیں۔ ممکن ہے! لیکن کسی شخص کا دماغ دوسروں کے علوم وفنون سے بھرا ہو مگر اس میں خود تحقیق یا اختراع کا مادہ نہ ہو تو ایک بیکار سی چیز ہے، اس لئے ایک حکیم کے خیال کے مطابق اصلی قابلیت صرف وہ وسائل یعنی طریقۂ استعمال ہے جس سے مواد گذشتہ کارآمد بنایا جا سکے، یہی تصرفات ہیں جن کی بنا پر ایک ادیب یا مؤرخ کو لائق سے لائق شخص پر جو صرف جامع اللغات ہو، ترجیح حاصل ہے، ورنہ ظاہر ہے کہ نرے الفاظ مؤخر الذکر کے ہاں کچھ زیادہ ہی ہوتے ہیں۔
انسانی احساسات و خیالات اور تحقیقات و اختراعات کی مسلسل تاریخ ہمارے سامنے موجود ہے اور کار لائل کہتا ہے کہ جس شخص کو چھپے ہوئے حروف تہجی کا راز معلوم ہے، وہ اسے قوت آخذہ سے اپنا کر سکتا ہے، صرف صدائے اصلی کی تلاش کا ذوق صحیح ہونا چاہئے، ہاں شبلی، فاضل شبلی نقوش حرفی کا رازدار ہے، اس نے اپنے ماخذوں کی چھان بین میں صرف صدائے اصلی سے غرض رکھی اور اپنے وسیع سلسلۂ تحقیقات میں زبردست قوت استقرائی کے ساتھ اسباب ونتائج کی تفریعات فلسفیانہ سے آج کل کے ترقی یافتہ مذاق کے مطابق اس طرح کام لیا جس سے اس کی آواز باز گشت تمام ملک میں گونج اٹھی اور ہندوستان کے علمی قلمرو میں ایک نیا تاریخی دور شروع ہو گیا۔
مختصر یہ کہ آج کل کے مصنفین میں علامہ شبلی کو ایک خاص امتیاز فوقیت حاصل ہے جو ان کے اور ہم عصروں کے حصہ میں نہیں آیا، ان کے سخت سے سخت حریف مقابل بھی ان کی تحقیقات کی گرد کو نہیں پہونچتے، بعضوں نے موضوع سخن ایسا اختیار کیا ہے کہ اگر زمانہ کی رفتار یہی رہی تو زیادہ جیتے معلوم نہیں ہوتے۔ نذیر احمد اپنی لائق رشک عربیت کے ساتھ بھی کچھ یوں ہی سے رہے، یادش بخیر! حالی نے مسدس کے ساتھ مقدمہ شاعری اور حیات جاوید لکھ کر اپنا ٹھکانہ کر لیا، لیکن شبلی قطعاً غیرفانی ہیں، آج ہزاروں صفحے متعدد جلدوں میں ان کے قلم سے نکل چکے ہیں اور جس موضوع پر جو کچھ لکھا گیا ہے کسی زبان میں اس سے بہتر مجموعۂ خیال موجود نہیں۔
میں نہیں جانتا اس سے زیادہ ہماری توقعات کیا ہو سکتی ہیں اور چونکہ سلسلۂ تصنیف باوصف موانع باقاعدہ طور پر جاری ہے، امید ہے ان کی تالیفات موعود استادانہ حیثیت سے آئندہ بھی ملک کو دماغی اور ادبی سبق دیتی رہیں گی۔
افسوس ہے کہ سلسلۂ آصفیہ ان کی جامعیت سے پورا فائدہ نہ اٹھا سکا، نہ ان کی مخفی قوتوں کو کافی تحریک دی گئی۔ دائرۃ التالیف کا پراسپکٹس مجھے ہمیشہ یاد رہےگا جس کی تکمیل تاریخ اسلامی کے ان عناصر پر جو آج تک سربمہر رہے ہیں، بہت کچھ روشنی ڈالتی اور ہم متقدمین کی سادہ اور بسیط سلسلۂ روایات کے ساتھ یورپ کی نکتہ سنجیوں سے بھی بے نیاز ہو جاتے، لیکن میں خوش ہوں کہ الندوہؔ نے جو اس تحریر کا موضوع اصلی ہے، گزشتہ نقصان کی تلافی کردی ہے۔ میرا ہمیشہ سے خیال ہے کہ منتشر معلومات کا بہت بڑا حصہ ایسا ہوتا ہے جس کے اجزا کسی مستقل تصنیف کے تحت میں نہیں آسکتے، اور ان کے لئے مؤقت الشیوع پرچوں کی ضرورت ہے۔ جن صاحبوں نے رسائل شبلی کو استفادتاً دیکھا ہے وہ بہت خوش ہوں گے کہ مضامین شبلی کا ایک ضخیم مجموعہ لائق حصول ہے۔
یعنی الندوہؔ کو جاری ہوئے دوسرا سال ہے، ۱۸ پرچے شائع ہو چکے ہیں جن کے تخمیناً چھ سو صفحے ہوتے ہیں اور یہ قریب قریب سب علامہ شبلی کے قلم کے سایہ میں ہیں، جن میں نہایت بلند پایہ ارجنیل مضامین پر طبع آزمائی کی گئی ہے یعنی علوم قدیمہ و جدیدہ کا موازنہ، عربی زبان کی نادر الوجود کتابوں پر تقریظ و تنقید، اکابر سلف کی سوانح عمریاں، ان کے اجتہادات سے بحث وغیرہ وغیرہ۔ غرض ایک علمی رسالہ کا اونچے سے اونچا تخیل جو ہو سکتا ہے، پیش نظر رکھا گیا ہے۔ آج کل کے رائج الوقت طالب العلمانہ رسالوں کی طرح ناقص لٹریچر میں دویم درجہ کی معلومات سے مقررہ صفحے نہیں بھرے گئے ہیں بلکہ جو کچھ ہے تاریخی لٹریچر کا اعلیٰ سے اعلیٰ نمونہ ہے۔
مثلاً میں صرف فلسفۂ یونان و اسلام کو لیتا ہوں جو نہایت معرکۃ الآرا مضمون ہے اور کئی نمبروں میں ختم ہوگا۔ آج ملک میں شبلی کے سوا کون ہے جو اس وسیع اور دقیق مضمون پر قلم آزمائی کی جرأت کر سکے، نہ جاننا بھی مزے کی چیز ہے، اس لئے بعضوں کی سمجھ میں یہ بات نہیں آئے گی، لیکن ہندوستان کیا اور ممالک میں بھی دوچار سے زیادہ نہیں ہیں جو مذاق موجودہ کے مطابق مسائل قدیمہ کے طے کرنے کی پوری صلاحیت رکھتے ہوں ۔ شبلی ہم میں پہلا شخص ہے جس نے مذہب کے ساتھ تاریخ و فلسفہ میں ربط باہمی پیدا کیا اور ان جواہر عقلی کی تحلیل و ترکیب کیمیائی اس طرح کی کہ لٹریچر میں ایک خاص امتزاج پیدا ہو گیا، جس کے آثار ان کے مستقل تاریخی سرمایہ کے علاوہ ’’الندوہ‘‘ میں کثرت سے ملیں گے۔
عموماً عنوان ایسے ہوتے ہیں جن کو اس سے پہلے اوروں کے قلم نے اس طرح کبھی مَس نہیں کیا، کس کس کو گناؤں، پوری تفصیل کا یہ موقع نہیں، جس طرح رسائل اخوان الصفا ہمارے گذشتہ ارتقاء عقلی کی لٹریری یادگار ہیں، میرا خیال ہے، یہ پرچہ آئندہ نسلوں کے لئے ندوۃ العلماء کے عملی کارناموں کا ایک جامع گوشوارہ ہوگا۔
جن صاحبوں کو میری طرح شبلی کے دل و دماغ کے نتائج سے تعلق رہا ہے، وہ ان مضامین میں ایک خاص بات اور دیکھیں گے یعنی طرز ادا (اسٹائل) اس قدر اچھوتا اور ’’صاف و شفاف‘‘ ہے کہ بڑے سے بڑا فصیح البیان بھی اس قسم کے دقیق مسائل کو ایسی برجستگی اور لطافت کے ساتھ ادا نہیں کر سکتا، اور گو فصاحت ان کی تمام تالیفات کا قدرتی خاصہ ہے، جس میں اہتمام کو دخل نہیں، تاہم بہ حیثیت یعنی قادر الکلامی کے ساتھ حسن بیان مضامین متذکرہ میں بہت ہی زیادہ نمایاں معلوم ہوتی ہے۔
غالبؔ زندہ ہوتے تو شبلی کو اپنی ’’اردوئے خاصہ‘‘کی داد ملتی جس نے ایک نوخیز بازاری یعنی کل کی چھوکری کو جس پر انگلیاں اٹھتی تھیں، آج اس لائق کر دیا کہ وہ اپنی بڑی بوڑھیوں اور ثقہ بہنوں یعنی دنیا کی علمی زبانوں سے آنکھیں ملا سکتی ہے، جوانیوں پر آئی ہوئی نچلی نہیں بیٹھ سکتی تھی، مدتوں شعراء سے گاڑھا اتحاد رہا، بہ اقتضائے سِن بری طرح کھل کھیلی، ہاتھ پاؤں نکالے، اور بہتیرے بنائے بگاڑے، کیونکہ ایک زمانہ شیدائی تھا، لیکن یہ باتوں ہی میں سب کو ٹالتی رہی، بعض جگہ بے آبروئی کے سامان ہو ہوکر رہ گئے اور بال بال بچی، آخر آخر میں ملک کے منچلے یعنی ناول تو یہاں تک ہاتھ دھوکر پیچھے پڑے کہ اس کی پردہ دری میں کچھ اٹھا نہیں رکھا تھا، کبھی کبھی دبی زبان سے اسے یہ کہتے سنا، ’’اری اٹھ جاؤں گی میں صحنک سے۔‘‘
لیکن دفعتاً اس کی حالت نے پلٹا کھایا، کثرت فواحش باعث سنجیدگی ہو گئی، اچھے دن آتے ہیں تو بگڑی بن جاتی ہے، اب وہ مقدس علماء کی کنیزوں میں داخل ہے، لیکن سنا گیا خوش اوصاف شبلی سے زیادہ مانوس ہے اور قریب قریب ان ہی کے تصرف میں رہتی ہے، الندوہ اسی تعلق کا ایک ثمر پیش رس ہے۔
پہلے اس کی قیمت للعہ؍ مقرر کی گئی، اب صرف دو روپیہ سالانہ رکھے گئے ہیں، میرے خیال میں کوئی وقیع علمی پرچہ تمام دنیا میں اس سے زیادہ سستا نہیں ہو سکتا، خاص کر جب چھپائی، کاغذ، اچھے سے اچھا ہو، نفیس پسند ایڈیٹر ان لوگوں میں ہیں جو حسن سیرت کے ساتھ صورت کی بھی اچھی چاہتے ہیں، یہ اصول ممدوح کی تمام تصنیفات میں عموماً ملحوظ رہتا ہے، اور کوئی کتاب کسی بھونڈے پریس کو نہیں دی جاتی، ان اوصاف کے ساتھ یہ پرچہ گویا مفت ہے، لیکن علمائے موجودہ کے دور آخری کی یادگار کی بقا اگر منظور ہے تو اس نونہال کو ہاتھوں ہاتھ لینا ہوگا یعنی کمی قیمت کی تلافی اگر ہو سکتی ہے تو کثرت اشاعت سے اور اس کی چلتی ہوئی تدبیر یہ ہے کہ ہر خریدار کم سے کم ایک ایک نام اور بڑھائے، ورنہ خوف ہے کہ ایک دن اس کو بھی روتے رہ جائیں گے۔ بیشک یہ دنیا کا کوئی غیرمعمولی واقعہ نہیں ہوگا، پرچے آئندہ بھی جاری ہوں گے، لیکن شبلی یعنی ہندوستان میں تاریخ کا معلم اول پھر کہاں!
دنیا کے نہایت گہرے تعلقات بھی راہ چلتے کی صاحب سلامت ہیں، سر سید چلے گئے، دوچار فیق کہیں کہیں رہ گئے ہیں، ایک ایک کرکے ہم سے رخصت ہو جائیں گے، اچھا! تو بڑے سے بڑا فلسفۂ زندگی یہ ہے کہ وقت موجودہ سے جہاں تک ممکن ہے، استفادہ کا کوئی پہلو رہ نہ جائے۔ اس لئے چلتے چلاتے جو کچھ ان کے دماغوں کی تحویل میں بچا کچھا رہ گیا ہے، وہ تو نکلوا لیجئے، ورنہ یاد رہے گوروں کی اردو سنی ہے، چلئے علی گڈھ کالج میں سنواؤں۔ دو راز حال بس یہ قطع ہو جائےگی، غالب کی اردو فارسی بندشوں کی افراط کے ساتھ جیسی ہوتی تھی یہی حالت آج کل مخلوط اردو کی انگریزی الفاظ کے ثقل آمیزش سے ہورہی ہے، لیکن امید ہے، الندوہ ملکی لٹریچر کو ان آلائشوں سے صاف ستھرا کرکے رہےگا۔
کیا اچھا تھا اگر اس کا نام ’’الجامع‘‘ ہوتا، تب بھی ندوہ ہی کا پرچہ رہتا، موجودہ نام آپ ہی آپ کچھ کھٹکتا ہے اور غیر ضروری سنجیدگی کے ساتھ ایک ساکن اور غیر متحرک شئے خیال میں آتی ہے، شگفتگی نام کو بھی نہیں، لیکن ’’الندوہ‘‘ ایک ایسی قائم المزاج جماعت کا پرچہ ہے کہ میری طفلانہ تحریک شاید ہی کسی مفید تغیر کی طرف مائل کر سکے، تاہم یہ کہنے سے باز نہیں رہ سکتا کہ شبلی کے تعلق سے تو ’’الجامع‘‘ ہی موزوں تھا۔
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |