علم الاقتصاد/دیباچہ مصنف
علم الاقتصاد انسانی زندگی کے معمولی کاروبار پر بحث کرتا ہے اور اُس کا مقصد اس امر کا تحقیق کرنا ہے کہ لوگ اپنی آمدنی کس طرح حاصل کرتے ہیں اور اس کااستعمال کس طرح کرتے ہیں۔ پس ایک اعتبار سے تواُس کا موضوع دولت ہے اور دوسرے اعتبار سے یہ اس وسیع علم کی ایک شاخ ہے جس کا موضوع خود انسان ہے۔ یہ امر مسلم ہے کہ انسان کا معمولی کام کاج، اس کے اوضاع و اطوار اور اس کے طرز پر زندگی پر بڑا اثر رکھتا ہے۔ بلکہ اُس کے دماغی قویٰ بھی اس اثر سے کامل طور پر محفوظ نہیں رہ سکتے۔ اس میں کچھ شک نہیں کہ تاریخ انسانی کے سیل رواں میں اصول مذہب بھی انتہا مؤثر ثابت ہوا ہے۔۔ مگر یہ بات بھی روز مرہ کے تجربے اور مشاہدے سے ثابت ہوتی ہے کہ روزی کمانے کا دھندا ہر وقت انسان کے ساتھ ساتھ ہے اور چپکے چپکے اس کے ظاہری اور باطنی قویٰ کو اپنے سانچے میں ڈھالتا رہتا ہے ذرا خیال کرو کہ غریبی یا یوں کہو کہ ضروریات زندگی کے کاملی طور پر پورا نہ ہونے سے انسانی طرزِ عمل کہا تک متاثر ہوتا ہے۔ غریبی قویٰ انسانی پر بہت بڑا اثر ڈالتی ہے، بلکہ بسا اوقات انسانی روح کے مجلا آئینہ کو اس قدر زنگ آلود کر دیتی ہے کہ اخلاقی اور تمدنی لحاظ سے اس کا وجود وعدم برابر ہو جاتا ہے۔ معلم اوّل یعنی حکیم ارسطو سمجھتا تھا کہ غلامی تمدن انسانی کے قیام کے لیے ایک ضروری جزو ہے، مگر مذہب اور زمانۂ حال کی تعلیم نے انسان کی جبلی آزادی پر زور دیا اور رفتہ رفتہ مہذب قومیں محسوس کرنے لگیں کہ یہ وحشیانہ تفاوتِ مدارج بجائے اس کے کہ قیام تمدن کی لیے ایک ضروری جزو ہو، اس کی تخریب کرتا ہے اور انسانی زندگی کے ہر پہلو پر نہایت مذموم اثر ڈالتا ہے۔ اس طرح اس زمانے میں یہ سوال پیدا ہوا کہ آیا مفلسی بھی نظم عالم میں ایک ضروری جزو ہے؟ کیا ممکن نہیں کہ ہر فرد مفلسی کے دُکھ سے آزاد ہو؟ کیا ایسا نہیں ہو سکتا ہے کہ گلی کوچوں میں چپکے چپکے کراہنے والوں کی دل خراش صدائیں ہمیشہ کے لیے خاموش ہو جائیں اور ایک درد مند دل کو ہلا دینے والے افلاس کا درد ناک نظارہ ہمیشہ کے لیے صفحہ عالم سے حرف غلط کی طرح مٹ جائے؟ اس سوال کا شافی جواب دنیا علم الاقتصاد کا کام نہیں۔ کیونکہ کسی حد تک اس کے جواب کا انحصار انسانی فطرت کی اخلاقی قابلیتوں پر ہے جن کو معلوم کرنے کے لیے اس علم کے ماہرین کوئی خاص ذریعہ اپنے ہاتھ میں نہیں رکھتے۔ مگر چونکہ اس جواب کا انحصار زیادہ تر ان واقعات اور نتائج پر بھی ہے جو علم الاقتصاد کے دائرہ تحقیق میں داخل ہیں اس واسطے یہ علم انسان کے لیے انتہا درجہ کی دلچسپی رکھتا ہے اور اس کا مطالعہ قریباً قریباً ضروریات زندگی میں سے ہے۔ بالخصوص اہل ہندوستان کے لیے تو اس علم کا پڑھنا اور اس کے نتائج پر غور کرنا نہایت ضروری ہے کیونکہ یہاں مفلسی کی عام شکایت ہو رہی ہے۔ہمارا ملک کامل تعلیم نہ ہونے کی وجہ سے اپنی کمزوریوں اور نیز ان تمدنی اسباب سے بالکل ناواقف ہے جن کا جاننا قومی فلاح اور بہبودی کے لیے اکسیر کا حکم رکھتا ہے۔ انسان کی تاریخ اس امر کی شاہد ہے کہ جو قومیں اپنے تمدنی اور اقتصادی حالات سے غافل رہی ہیں اُن کا حشر کیا ہوا ہے۔ ابھی حال میں مہاراجہ بڑودہ نے اپنی ایک گراں بہا تقریر میں فرمایا تھا کہ اپنی موجودہ اقتصادی حالت کو سنوارنا ہماری تمام بیماریوں کا آخری نسخہ ہے اور اگر یہ نسخہ استعمال نہ کیا گیا تو ہماری بربادی یقینی ہے۔ پس اگر اہل ہندوستان دفتر اقوام میں اپنا نام قائم رکھنا چاہتے ہوں تو ان کے لیے ضروری ہے کہ وہ اس اہم علم کے اصولوں سے آگاہی حاصل کر کے معلوم کریں کہ وہ کون سے اسباب ہیں جو ملکی عروج کے مانع ہو رہے ہیں۔ میری غرض ان اوراق کی تحریر سے یہ ہے کہ عام فہم طور پر اس علم کے نہایت ضروری اصول واضح کروں اور نیز بعض جگہ اس بات پر بھی بحث کروں کہ یہ عام اصول کہاں تک ہندوستان کی موجودہ حالت پر صادق آتے ہیں۔ اگر ان سطور سے کسی فردِ واحد کو بھی ان معاملات پر غور کرنے کی تحریک ہو گئی تو میں سمجھوں گا کہ میری دماغ سوزی اکارت نہیں گئی۔ اس دیباچے میں یہ واضح کر دینا بھی ضروری معلوم ہوتا ہے کہ یہ کتاب کسی خاص انگریزی کتاب کا ترجمہ نہیںہے بلکہ اس کے مضامین مختلف مشہور اور مستند کتب سے اخذ کئے گئے ہیں اور بعض جگہ میں نے ذاتی رائے کا بھی اظہار کیا ہے۔ مگر صرف اسی صورت میں جہاں مجھے اپنی رائے کی صحت پر پورا اعتماد تھا۔ زبان اور طرز عبارت کے متعلق صرف اس قدر عرض کر دینا کافی ہو گا کہ میں اہل زبان نہیں ہوں۔ جہاں تک مجھ سے ممکن ہوا ہے میں نے اقتصادی اصولوں کے حقیقی مفہوم کو واضح کرنے کی کوشش کی ہے اور اردو زبان میں اس متین طرز عبارت کی تقلید کرنے کی کوشش کی ہے جو انگریزی علمی کتابوں میں عام ہے نئی علمی اصطلاحات کے وضع کرنے کی دقت کو ہر با مذاق آدمی جانتا ہے۔ میں نے بعض اصطلاحات خود وضع کی ہیں اور بعض مصر کے عربی اخباروں سے لی ہیں جو زمانۂ حال کی عربی زبان میں آج کل متداول ہیں۔ جہاں جہاں کسی اردو لفظ کو اپنی طرف سے کوئی نیا مفہوم دیا ہے ساتھ ہی اس کو تصریح بھی کر دی ہے۔ اس کتاب میں ایک آدھ جگہ انگریزی محاورہ کی تقلید میں میں نے اسم ذات کو اسم صفت کے معنوں میں بھی استعمال کیا ہے۔ مثلاً سرمایہ داروں کے معنوں میں یا محنت محنتیوں کے معنوں میں۔ اگرچہ محاورہ اردو پڑھنے والوں کو غیر مانوس معلوم ہوگا تاہم اس کے استعمال میں ایسی سہولت ہے جس کو با مذاق لوگ خوب محسوس کی سکتے ہیں۔ جہاں کئی فارسی محاورات کے لفظی تراجم اردو زبان میں مستعمل ہیں اگر اس لطیف محاورہ انگریزی کا ترجمہ بھی مستعمل کر لیا جائے تو کیا حرج ہے۔ اصطلاحات کی نسبت ایک اور عرض یہ ہے کہ میں نے مانگ اور طلب ، دستکاری اور محنت، دستکار اور محنتی ، نفع اور منافع ، ساہوکار اور سرمایہ دار، مالک و کارخانہ سار مرادف استعمال کئے ہیں۔ پیدائش اور پیدا وار کا استعمال ایک باریک فرق کو ظاہر کرتا ہے۔ یعنی پیدائش سے مراد فعل کی ہے اور پیداوار سے مراد نتیجہ فعل کی۔ علیٰ ہذاالقیاس لفظ تبادلہ اس جگہ استعمال کیا ہے جہاں ایک شئے دوسری شے کے عوض میں دی جائے۔ عربی زبان میں مبادلے کا یہ مفہوم لفظ مقائفہ سے ظاہر کیا جاتا ہے ، مگر چونکہ یہ لفظ عام فہم نہیں ہے ، اس واسطے میں نے اس کے استعمال سے احتراز کیا ہے۔ اس دیباچے کو ختم کرنے سے پیشتر میں استاذی المعظم حضرت قبلہ آرنلڈ صاحب پروفیسر گورنمنٹ کالج لاہور کا شکریہ ادا کرتا ہوں جنہوں نے مجھے اس کتاب کے لکھنے کی تحریک کی اور جن کے فیضان صحبت کا نتیجہ یہ اوراق ہیں۔ میں استاذی جناب قبلہ لالہ جیا رام صاحب ایم اے پروفیسر گورنمنٹ کالج لاہور اور اپنے عزیز دوست اور ہم جماعت دوست اور ہم جماعت مسٹر فضل حسین بی اے کینٹب بیرسٹر ایٹ لا کا بھی مشکور ہوں جنہوں نے مجھے نہ صرف اپنے بیش قیمت کتب خانوں کی کتابیں ہی عنایت فرمائیں بلکہ بعض مسائل کے متعلق نہایت قابل قدر مشورات بھی دئیے۔ اس کے علاوہ مخدوم و مکرم جناب قبلہ مولانا شبلی نعمانی مدظلہ بھی میرے شکریہ کے مستحق ہیں کہ انھوں نے اس کتاب کے بعض حصوں میں زبان کے متعلق قابل قدر اصلاح دی۔
محمد اقبال