Jump to content

علوم کی بدنصیبی

From Wikisource
علوم کی بدنصیبی
by محمد حسین آزاد
319398علوم کی بدنصیبیمحمد حسین آزاد

تمہیدتمام صاحب جو ہر اور کل اہل کمال ہمیشہ سے ان نالائقوں اور غلط نما باکمالوں کے ہاتھوں سے نالاں ہیں، جو فلک کی سفلہ پروری یا قسمت کی یاوری سے ہوائے مراد کے بلون میں بیٹھے ہیں اور ترقیوں کے آسمان پر سیر کرتے پھرتے ہیں۔ اس معاملہ میں اہل علوم سے زیادہ کوئی واجب الرحم نہیں۔ صدیوں کے بعدتو کوئی صاحب صفت پیدا ہوتا ہے۔ پھر اگرچہ ہر شخص کے کام کی ترقی خاص وعام کی قدردانی پر منحصر ہے لیکن بنیاد اس کی حکام یا اہل دول کی بدولت ہوتی ہے۔ اسی واسطے اس کی رونق بازار کی عمربہت تھوڑی ہوتی ہے اور ان خرابیوں کا بیان کرنا حد قلم سے باہر ہے۔ اول تو اہل کمال ہمیشہ کم اور بے کمال انبوہ درانبوہ ہیں۔ ان کی بھیڑ بھاڑ ایسی خاک اڑاتی ہے کہ ان کے کمال پرخاک پڑ جاتی ہے۔ ناچار دل شکستہ ہوکر بیٹھ رہتے ہیں۔ جو ثابت قدم رہتے ہیں، ان کی بد نصیبی یہ کہ جن قدردانوں پر مدار کار ہے کبھی کثرت کار سے، کبھی بے پروائی سے، غرض تھوڑے ہی دنوں میں وہ اپنے شوق کو ان لوگوں کے حوالے کر دیتے ہیں جواس کام کے لائق نہیں۔اس صورت میں اگرقسمت سے ہوا چلی اور خود بخود کسی کی گود میں ثمرمراد آپڑا تو آپڑا، نہیں تو ذلت، تباہی اور دربدری کے سوا کچھ حاصل نہیں۔ ان ناگوار باتوں کوغلط نما باکمال گوارہ کر لیتے ہیں۔ مگر اصل باکمال مرنے کو اس سے بہتر سمجھتے ہیں۔ پھر بھی ناچار گوارہ کرنی پڑتی ہیں۔ سفارشیں اٹھاتے ہیں۔ در بدر پھرتے ہیں۔ خوشامدیں کرتے ہیں۔ غرض کہ اس رستہ کی منزلوں میں جو جو مصیبتیں پیش آتی ہیں وہ ایک افسانہ کے استعارہ میں بیان ہوتی ہیں۔آغاز مطلبعلوم وفنون نے دیکھا کہ مدت گزر گئی ہمارے مرید اور خدمت گزار فقط اپنی ارادت دلی سے انسان کے فائدوں کے لئے محنت کر رہے ہیں اور جس صدق دل سے، جاں فشانی اورعرق ریزی کرتے ہیں، اس کاصلہ کچھ بھی نہیں ملتا، بلکہ جن بے لیاقتوں کو جوہر کمال سے کچھ واسطہ نہیں اور انسان کی نفع رسانی کی بھی کچھ پروا نہیں رکھتے، وہ کامیابی اور عیش وعشرت کی بہاریں لوٹ رہے ہیں۔ سب کو اس بات کا بہت رنج ہوا اور سلطان آسمانی کے دربار میں عرضی کی۔ خلاصہ جس کا یہ کہ انصاف وعدالت کے بموجب تمام مریدان خدمت گزار کو بمتقضائے انصاف و عزت اور دولت کے انعام مرحمت ہونے واجب ہیں۔ دربار میں مشتری صدر اعلی تھا اور عطارد میر منشی۔جب یہ عرضی پڑھی گئی تو جو جو خدمتیں اور ادائے خدمت میں مشقیں تھیں، سب جتائی اور دکھائی گئیں اور حق تلفیوں کا دعویٰ کیا گیا۔ معلوم ہوا کہ فی الحقیقت عالم خاک میں علوم وفنون کی کوششوں اور کارگزاریوں کا شکریہ کسی نے ادا نہیں کیا۔ اب وہ آئے دن کے دکھ بھرتے بھرتے ایسے دق ہو گئے ہیں کہ یقین ہے چند روز میں دنیا کو چھوڑ کرعالم بالا کی طرف چلے آئیں اور اگروہ دنیا میں نہ رہے تو حضرت انسان جنہوں نے یہ شوکت و شان بنائی ہے، حیوانوں سے بدتر رہ جائیں گے اور جوان سے زیادہ وحشی ہوں گے، وہ انہیں پھاڑ کھائیں گے۔ اس کے فیصلے کے لئے عالم بالا میں کمیٹی ہوئی۔ قاعدہ ہے کہ جو اراکین دربار کارنگ ہوتا ہے وہی کل دربار کا رنگ ہوتا ہے۔ چنانچہ سب کا اتفاق رائے اس بات پر ہوا کہ ضرور کسی کو بھیجنا چاہئے۔ملکہ کو کب جمال کی ایک بیٹی تھی کہ باپ اس کاعالم خاکی سے تھا مگر اس کے نورجمال اور حسن کمال نے تمام عالم بالا کو روشن کر رکھا تھا، اور صداقت و حقیقت کے مدرسہ میں تعلیم پائی تھی۔ اسے حضور سے ملکہ علم افروز کا خطاب عطا ہوا اور عقل کا تاج سر پر رکھا گیا، جس میں آفتاب کی طرح فہم و ادراک کی شعائیں جگمگاتی تھیں، رفعت کا تخت پھولوں سے سجایا، اس پر ملکہ موصوفہ کو جلوہ گر کرکے اس طرف روانہ کیا۔ آسمان نے تارے اتارے اور زمین نے بجائے غبار کے نور اڑایا۔ اس نے عالم میں آکر باپ کی طرف سے وہ شوکت و شان اور لیاقت دکھائی جس سے تمام بے لیاقت تھرا گئے اور ماں کی طرف سے وہ روشنی پھیلائی گئی کہ خاک کا کرہ نور کی قندیل ہو گیا۔دن رات دربار جاری تھا۔ علوم کے مسائل اور تصنیفات کے مقدمات پیش ہوتے تھے۔ استادیعنی صداقت کی طرف سے متانت اور خاموشی مصاحبت میں آئی تھیں۔ چنانچہ علوم وفنون جن لوگوں کی سفارش کرتے تھے، وہ انہی کے ذریعہ سے آکر پیش ہوتے تھے۔ عالم بالا کے لوگ علم کے عاشق تھے۔ سب اس کی فرماں روائی دیکھ کر بہت خوش ہوئے۔ جلوس دربار کے لئے ہر طرح کے سامان بھیجے، اوربارگاہ شاہی نے عجب شان وشکوہ حاصل کی۔ جب دربار میں آکر بیٹھی توعدل وانصاف کھوٹے کھرے کے پرکھنے کو کھڑے رہتے۔ امید سامنے ناچا کرتی۔ قدردانی دست راست پر کھڑی رہتی اور سخاوت کے اشارہ کے بموجب ہرایک کو انعام دیتی کہ قسمت کے ہاتھوں لوگوں تک پہنچ جاتے تھے۔ایک دن ملکہ علم افروز اپنی رفعت کے تخت ہوادار پر سوار ہوکر ہوا کھانے نکلی۔ اتفاقاً ایک پہاڑ کی طرف گزر ہوا۔ کوہ مذکور پر جہالت ایسی چھائی ہوئی تھی کہ دامن کوہ سے لے کرچوٹی تک تمام دھواں دھار سے گھٹ رہا تھا۔ اس کے قدم سے سیاہی کے دھوئیں اڑ گئے اور تمام تاریکی برطرف ہوگئ۔ یہاں اگر چھاؤں بھی تھی تو نہ بارش کی سیرابی سے بلکہ گھٹاؤ کے پسینے سے سیل رہی تھی۔ 1 اب اس نے اپنی سرسبزی کو ہرا کیا۔ کچھ پھول تھے تو روشنی بغیر ٹھٹھر رہے تھے۔ وہ بھی چمک کر رنگ نکال لائے۔ غرض ہر شئے کی طبیعت اپنی اصلیت پر آکر شگفتگی کے جوش سے کھل گئی اور خوشبوؤں سے عالم مہک گیا۔ روئے زمین پر بہار کا یہ عالم دیکھ کر سلطان آسمانی نے بھی حکم دیا کہ سامنے سے پردے اٹھا دو۔ عالم بالا کے پاک نہادوں نے گلدستے ہاتھوں میں لے لیے اور خوش ہوکر پھول اچھالنے لگے۔جب اس پہاڑ کو گلوں سے گلزار اور شادابی سے نوبہار دیکھا تو علم تعمیر وہاں آیا۔ اپنے کمال سے ایک محل عالی شان تیار کیا۔ بہار نے کوسوں تک گلزار لگایا۔ طرح طرح کے اوزار کام میں آئے۔ سڑکیں نکالیں۔ اتار چڑھاؤ درست کئے۔ ریلیں جاری کیں۔ جابجا فرودگاہیں اوران میں مہمان خانے اور آرام خانے بنائے۔ غرض عجائبات وغرائبات سے سجاکرایسا طلسمات کر دیا کہ جس کے دیکھنے سے آنکھوں کو طراوت اور خیالات کو بلندی، وسعت حاصل ہو اور تصنیفات میں ایجاد اور مضمون آفرینی کے لئے سامان بہم پہنچیں۔ چنانچہ ملکہ نے یہیں سکونت اختیار کی۔ قسمت نے آکر انعاموں کا دروازہ کھول دیا۔ صداقت جانچتی تھی اور عدل بے رو و رعایت دیے جاتا تھا۔یہ دروازہ رات دن کھلا رہتا تھا۔ امید دروازہ پر بیٹھی رہتی تھی اور جن کے لئے علوم و فنون سفارش کرتے تھے انہیں بلا لیتی تھی۔ تمام دربار کثرت خلائق سے بھرا رہتا تھا اور ہر چند اکثر ناکام بھی جاتے تھے۔ مگر شکایت کوئی نہ کر سکتا تھا کیونکہ خود ملکہ کی آنکھ کسی سے غافل نہ تھی۔ جو لوگ وہاں سے ناکام پھرتے تھے، ان کا نام نالائقوں کی فہرست میں درج ہو جاتا تھا۔ پھر وہ عالم شہرت سے خارج ہوکر یاگمنامی کے گوشہ میں بیٹھ جاتے تھے کہ کوئی انہیں پوچھتا نہ تھا، یا ہیچ وپوچ اور واہیات کاموں پرجھک پڑتے تھے۔ بعض ایسے بھی ہوتے تھے کہ محنت سے مدد لیتے تھے اور پھر اپنے نقص کی تکمیل میں کوشش کرتے تھے۔ اب اہل نظرغباری عینکیں لگالیں کہ بے کمالوں کے دلوں کے غبار آندھی ہوکر اٹھتے ہیں، ان کے اقبال کا دور آیاہے۔ناکاموں میں اکثر نااہل ایسے بھی تھے کہ نہ اپنی ناکامی پر شرمندہ ہوتے تھے نہ شرمندگی کے گوشہ میں بیٹھتے تھے۔ چند روز کے بعد ان کی تعداد بہت بڑھ گئی۔ ایک دن سب نے محل کو گھیر لیا اور باغ میں آکر بستر ڈال دیے۔ ہر چند ملکہ مذکور کا جوہر افلاکی تھا، مگر باپ کی طرف سے پیوند خاکی تھا۔ اس لئے تجویزمیں کچھ نہ کچھ چوک بھی ہوتی تھی اور اگرچہ اس خطاکی اصلاح بھی بہت جلد ہوجاتی تھی مگر پھر بھی حریف جو تاک میں لگے ہوئے تھے، انہیں کہیں نہ کہیں موقع گرفت کا ہاتھ لگ ہی گیا۔ چنانچہ انہوں نے کچھ اپنے، کچھ اپنے رفیقوں کے گھروں میں کمیٹیاں شروع کردیں اور آپس ہی میں نالش اور اپیل کے سے ڈھنگ ڈال دیے۔ تمام عالم میں رفاہ عام اور اصلاح کا نام لے کر فریاد مچادی، جس سے جمعیت بے شمار اکٹھی ہو گئی۔ صبح و شام جمع ہوتے، لمبی لمبی تقریر کرتے، مگر اس میں مطلب کا نام نہیں، جھوٹ موٹ کی بکواسیں کرتے، جن میں دلیل سے کام نہیں۔ کوئی سروقدبن کر رائے دیتا۔ کوئی شمشاد قد ہوکر رائے شامل کرتا۔ کوئی تائید کرتا۔ کوئی تسلیم کرتا۔ آپ ہی اتفاق رائے کرلیتے، آپ ہی واہ واہ واہ کر لیتے۔ اسی تودہ طوفان کو لکھتے اور پروسیڈنگ (رویداد) نام رکھتے، جسے مشتہر کرکے بڑے فخر کیا کرتے۔ان ناکاموں کی امید سے راہ تھی۔ اور بے حیائی ان کی بڑی خیر خواہ تھی۔ چنانچہ وہ ہمیشہ ان کو ملکہ کے دربار کی طرف دھکیلتی رہتی تھی کہ چلو اور دوبارہ دعویٰ پیش کرو۔ اگرچہ وہاں سے دھکے کھاتے تھے اور جب جاتے، نکالے جاتے تھے، پر بھی امید کایہ حال تھا کہ ان کی رفاقت چھوڑتی نہ تھی اور بے حیائی برابر زور لگائے جاتی تھی۔ غرض ان اندرونی راہوں کے ساتھ انہوں نے ایک اور رستہ نکالا۔ یعنی خیال کیاکہ یہ جمعیت ہماری جو امید کی حمایت اور بے حیائی کی عنایت سے روز افزوں ہے، اس کی کثرت ہمیں ضرور فتح یابی بخشے گی۔ پس جس طرح ہو سکے اپنی بھیڑ بھاڑ کو بڑھانا چاہئے۔ جب پروردگار کسی بندہ خاص کوعزت کی نظر سے دیکھتا ہے اور اپنے بندوں کے کام اس کے سپرد کرتا ہے تو خواہ مخواہ کے خیر خواہ مشورہ دینے کو بہت پیدا ہوجاتے ہیں۔ مگر دیکھو ان کی باتوں میں آکر حقیقت اور واقعیت کو نہ بھول جانا چاہئے۔ خیال کرکے سنو یہ خیر خواہ کیسے کیسے ہوتے ہیں۔ادھر بے لیاقت اہل فساد نے یہ سامان بہم پہنچائے، ادھر یہ قدرتی پیچ پڑا کہ ملکہ کو آسمان سے اترے ہوئے مدت ہوئی تھی۔ عالم خاک میں آکر نیت اس کی پستی کی طرف زیادہ ترمائل ہونے لگی اورعدل و انصاف کی نصیحتیں سب بھول گئی۔ یاتو صحبت اس کی علوم و فنون سے تھی یا غرور سے دوستی ہو گئی۔ آرام اور غفلت کو مصاحبت میں لیا اور رفتہ رفتہ غرور سے ایسی رسم وراہ بڑھی کہ اس سے شادی ہوکر دو لڑکیاں بھی پیدا ہو گئیں۔ ایک ان میں سے خوشامد اور دوسری خام خیالی۔ خوشامد نے فیاضی سے فیض تعلیم پایا تھا اور خام خیالی نے قسمت سے۔غرور کے محل میں بی بی خودپسندی بھی تھیں، جن کا اس نے دودھ پیا تھا۔ دوسری دایہ خودرائی تھی، اس نے پالا تھا۔ ملکہ علم افروز نے یہ غضب کیا کہ ساری خوبو خاوند کی اختیار کرلی۔ رفتہ رفتہ خودرائی کی صلاح سے فیصلے اور خودپسندی کے دستخط سے احکام جاری ہونے لگے۔ صداقت نے جوسبق پڑھائے تھے، سب بھلا دیے اور عدل تو بے کارہی ہو گیا۔ جب ان مصاحبوں کے اختیار اور لڑکیوں کی محبت زیادہ ہوئی تو علوم کا زور بالکل گھٹ گیا۔ اس کے رفیق اور قدردان دربار سے بند ہو گئے۔ وہ بیچارے بجھے چراغوں کی طرح طاقوں میں پڑے رہتے۔ ملکہ کامنہ دیکھنا بھی نصیب نہ ہوتا۔ انجام اس کا یہ ہوا کہ علوم و فنون کے خدمت گزار محنتیں کرکے راتوں کوصبح اور صبحوں کو رات کرتے، برسوں کی دست کار یوں میں اپنے کمال ظاہر کرتے، مگر صلہ کے نام خاک بھی نہ پاتے۔ البتہ ان میں بھی جو چالاک ہوتے اور خام خیالی اور خوشامد کی وساطت سے وہاں تک جا پہنچتے ان کے لئے سب کچھ موجود تھا۔جب ارکان سلطنت کی بے اعتدالیاں حد سے گزر جائیں تو اہل فساد کیوں نہ سر اٹھائیں۔ جب دربار کا رنگ اس طرح بے رنگ ہوا، نہ علوم کے قدرداں وہاں رہے، نہ فنون کے جوہر شناس، تو چرچے اس کے جابجا پھیلے اور ان نالائقوں کو بھی خبریں پہنچیں جن کی علوم سفارش نہ کرتے۔ چنانچہ یہ خبریں سن سن کر ان کے ہاں بڑی خوشیاں ہوتی تھیں۔ وہ ملکہ کے دل سے دشمن بدخواہ تھے۔ ان باتوں کو اس کے زوال ودولت کے آثارسمجھ کر اپنی کامیابی کی تدبیروں میں زیادہ تر سرگرم ہوئے۔ ادھر ملکہ کے دربار کا یہ حال تھا کہ امید خام خیالی کے آنے سے خوش تھی۔ ادھر بے حیائی اپنے یاروں کو خوشامد کے سپرد کرتی جاتی تھی۔ دشمن مخفی جو شیطانوں کی طرح لپٹے ہوئے تھے، ملکہ کو ان کا خیال بھی نہ تھا۔ حضرت انسان کا قاعدہ ہے، جب اپنی اوج پرآتے ہیں، تو اصلیت کو بھول جاتے ہیں۔ اچھوں کو گھٹاتے ہیں، بروں کو بڑھاتے ہیں۔ ویسے ہی اپنے کئے کی سزا پاتے ہیں۔مقام افسوس یہ ہے کہ اب ملکہ کی شان شاہی نہ رہی۔ دکھاوے کی رسموں پر آ گئی، زبانی جمع خرچ بہت، باقی ندارد۔ مبالغے، استعارے، بلندپروازیاں، لفاظیاں حدسے زیادہ، مضمون و مدعاغائب۔ کتابیں جلدیں کی جلدیں، مطلب پڑھو تو ایک حرف نہیں، یا تعریف اور خوشامد یا بے لطف اور بے معنی عبارتیں۔ انجام یہ ہوا کہ فقط اوپر اوپر کے تزک و احتشام تھے، اندر کچھ نہ تھا۔ یا تو ہر عرضی فورا ًسنی جاتی تھی اور ہر بات پر خاطرخواہ توجہ ہوتی تھی، یا باہر ایک ایوان بنوا کر اس کا نام منتظر خانہ رکھا گیا کہ امیدوار وہاں جاکر حاضر ہوا کریں۔ جن لوگوں کو بے حیائی، خوشامد کے سپرد کرتی تھی، وہ بے روک اس گھر میں چلے جاتے تھے، کوئی مزاحم نہ ہوتا تھا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ رنگ برنگ کا آدمی دربار میں آکر بھر گیا۔ ملک ملک کے لوگ چلے آتے تھے اور فقط حمایتیوں کے بھروسے پر اس جوش و خروش سے اظہار کمال اور امتحان دینے کو بڑھتے تھے کہ ایک پر ایک گرتا تھا۔ جب دربار کا رنگ بگڑتا ہے تو غرض مندوں کے خیالات اس سے زیادہ بگڑ جاتے ہیں۔ مگر تم یہ خیال کرو کہ اس عالم میں غریب غرض مندوں پر کیا گزرتی ہے۔جولوگ اس دربارعام میں شریک ہوتے تھے، وہ سمجھتے تھے کہ ہم ملکہ کی خدمت میں پہنچ لئے، کیوں کہ ان کے لئے بڑا قوی وسیلہ تھا یعنی خوشامد۔ خوشامد کے ہاں حقیقت اور واقعیت دونوں کو دخل نہیں۔ مگر اکثر ایسا ہوتا تھا کہ وہاں سے معاملہ قسمت پر جا پڑتا تھا۔ اس کا سبب یہ تھا کہ اندر کا دروازہ خام خیالی کے سپرد تھا۔ اور وہ اپنے دل کی راجہ تھی۔ جب چاہتی تھی کھول لیتی تھی۔ جب چاہتی تھی بند کر دیتی تھی۔ غرض کہ بد نصیب عرضی دار اپنی ساری عمر عزیز اس بد حالی میں برباد کرتے تھے کہ کبھی آس کبھی بے آس۔ ابھی خوش، ابھی اداس۔ اس ایوان کے اندر وسواس داروغہ تھا اور امیدواروں کا یار بنا ہوا تھا۔ وہ دم بدم آتا تھا اور ایسی ایسی باتیں کان میں پھونک جاتا تھا کہ جن کا پورا ہونا قیامت تک ممکن نہ ہو اور امید کہتی تھی کہ ہاں ہاں اب حسن قبول کا خلعت دلواتی ہوں۔ساتھ اس کے رشک ڈیوڑھی کا داروغہ تھا۔ اس کے گھرمیں رات دن آگ پڑی دہکتی تھی۔ یہ سب اسی کی سپردگی میں تھے اور باوجود کہ اس حال تباہ میں گرفتار تھے، مگر بدقسمتی یہ کہ اب بھی اتفاق نہ کرتے تھے۔ ایک ایک کو دیکھتے تھے اور جلے مرتے تھے اور آپس میں لڑتے تھے۔ عمارت مذکور میں اندھیرا چھایا تھا۔ دیواروں پر الوبول رہے تھے۔ گرد بدنامی کی چمگادڑیں اڑتی پھرتی تھیں۔ ان کی آنکھوں میں علم کی شکاعیں، سوئیاں ہوکر چبھتی تھیں اور پروں 2 سے ایسی خرابی و خواری کی بوندیں جھاڑتی تھیں کہ جس پر گرتی تھیں، داغ پڑ جاتا تھا۔ حق داروں کا حق بھی کچھ نہ کچھ زور رکھتا ہے مگر نہ اس قدر کہ طوفان نوح کا مقابلہ کر سکے۔ہر چند کہ جس شخص کے داغ لگتا تھا، نیک نامی بھی اس کے پیچھے پیچھے ہو لیتی تھی مگر خدا جانے بڑھاپا تھا یا بیماری کا ضعف تھا کہ بہت آہستہ آہستہ چلتی تھی۔ یہ بیچاری ہر چند کوشش کرتی تھی کہ کسی طرح اپنا رنگ پھیر کراس دھبے کو چھپادے لیکن خرابی یہ تھی کہ اس کا رنگ بہت کچا تھا۔ ذرا سا پانی لگنے سے یا دھوپ میں رہنے سے اڑجاتا تھا کہ اس سے دھبے اور بھی روشن ہو جاتے تھے اور بدنامی کے داغ کبھی نہ مٹتے تھے۔ البتہ صداقت کے تخت کے نیچے ایک چشمہ جاری تھا۔ اس کے پانی سے خوب دھوئے جاتے تھے، مگر وہاں سے اس پانی کاآنامشکل تھا۔ ہاں اگر لاتاتھا تو وقت ہی لاتا تھا۔ 3 طوفان بے تمیزی میں قدم رکھنے کوجگہ ملے توبھی گوشہ گیری ہی بہترہے۔چونکہ علوم کادل گوارہ نہ کرتا تھا کہ اپنے معتقدوں کواس طرح تباہی کی حالت میں دیکھیں، اس لئے اکثروں کولے لیتے تھے۔ چنانچہ تاک میں لگے رہتے تھے اور جب موقع پاتے کسی نہ کسی ڈھب سے ملکہ کی خدمت میں جاپہنچاتے تھے۔ ملکہ دیکھ کرفقط ابروکااشارہ کردیتی تھی یعنی منتظر خانہ میں حاضرہوں۔ وہاں کوئی ان کی سنتا نہ تھا۔ ان بیچاروں کونہ فقط رشک بلکہ وسواس بھی ستاتاتھا۔ بے حیائی ایک چیخ مارکہتی تھی کہ کیوں خواہ مخواہ گھس آئے اور بدنامی کواشارہ کرتی تھی کہ جاؤ داغ لگادو۔ اخباروں میں چھاپ دو، اشتہار دے دو، سارے جہان میں رسوا کردو۔ یہ بیچارے گھبراکر گرتے پڑتے بھاگتے تھے۔ کسی کی کتاب چھٹ پڑتی تھی۔ کسی کاعمامہ رہ جاتاتھا۔ مگراکثرداغ بھی کھاتے تھے۔ جوجوداغ لگ جاتے تھے وہ نہایت مشکل سے دھوئے جاتے تھے اورجن کے وہ داغ لگاہوا تھا لوگ دور ہی سے تاڑ جاتے تھے کہ یہ ضرور کبھی نہ کبھی منتظر خانے کی ہواکھاآئے ہیں۔غرض مندبیچارے ہرطرح ادائے خدمت کوحاضر ہیں، کاش کہ وہاں قبول ہو۔ باقی امیدوار اس مبارک گھڑی کے انتظار میں بیٹھے رہتے تھے کہ کب خام خیالی اندرآنے کواشارہ کرے اورکب ہم حضور میں باریاب ہوں۔ یہ غرض مندبیچارے احتیاج کے مارے اسے خوش کرتے تھے مگرنہ فصاحت اصلی، یا اشعار واقعی، یاخیال عالی سے، بلکہ برخلاف اس کے جھوٹی داستانیں، عاشقانہ افسانے، زٹلیات، ڈھکوسلے کہ ان میں ملکہ کی بھی تعریف ہوتی تھی اور اس کے شوہر یعنی غرور کی بھی خوشامد ہوتی تھی۔ غضب یہ تھا کہ وہاں یہ بھی ایک آدھ ہی دفعہ سنی جاتی تھی۔ کچھ توخوش طبعی چٹکیوں میں اڑادیتی تھی، کچھ بددماغی کی چینِ جبیں میں چلے جاتے تھے۔بعض اشخاص خام خیالی کی بدولت دربارتک پہنچ بھی گئے اور ملکہ نے قسمت سے انعام بھی ایسے ایسے دلوائے جن کی انہیں خودبھی امید نہ تھی۔ مگر تخت کے پاانداز میں کچھ سونے کی زنجیریں پڑی تھیں۔ جھٹ گلے میں ڈالیں اور وہیں باندھ دیا کہ ہر دم زیر نظر رہو، مگر اشاروں پر کام کرو اور اسی طرح زندگی بسر کر دو۔ لطف یہ تھا کہ لوگ ان زنجیروں کو پہن کر فخر کرتے تھے اور کیسے ہی نازیبا اور بے عزتی کے کام لے، بلکہ گالیاں بھی دے تو پیشانی پر بل نہ لاتے تھے۔ اس پر بھی خام خیالی جب چاہتی تھی، پکڑ لیتی تھی اور زیور و لباس اتار، پھر منتظر خانے میں دھکیل دیتی تھی۔یہ لوگ وہاں آکر پھر طوفان بے تمیزی کی بھیڑ میں مل جاتے تھے۔ ہاں بعض اشخاص جنہیں تجربہ کی نصیحت نے کچھ اثر کیا تھا وہ توکسی اور رستے سے ہوکر نکل گئے اور کوئی اور خوشحالی کی راہ ڈھونڈ لی۔ باقی وہیں پڑے رہے۔ عمر گزار گئے اور خوشامد کے ذریعہ سے خام خیالی کو خوش کرتے رہے۔ اتنے میں ایک اور بھیڑ ک اریلا آ گیا۔ چنانچہ جب جگہ نے تنگی کی تو گرد مکان مذکور کے بہت سے کمرے تھے، ان میں سے ہر ایک کو حیثیت کے بموجب بیماری، کاہلی، سستی، شرمندگی، مفلسی، مایوسی کے کمروں میں ڈال دیا کہ وہاں وعدے اور وعدہ شکنی، خوشی اور ناخوشی، امید اور ناامیدی میں زندگی کے دن پورے کرتے رہیں اور آخر ملک عدم کو چلے جائیں۔دیکھو صبح کو رستہ بھولے شام کو گھرآتے ہیں۔

علوم و فنون نے بہت سے دھکے کھا کر معلوم کیاکہ اب اس جہاں میں رہنا عزت نہیں بلکہ بے عزتی ہے۔ ملکہ کے محل سے نکلے، تمام دنیا میں پھرے، تکلیف ومصیبت کے سوا کچھ نہ پایا۔ اتفاقا ًایک سبزہ زار میں گزر ہوا۔ ایک بہتے چشمے کے کنارے پر کچھ چھوٹے چھوٹے مکان اور کئی جھونپڑیاں نظر آئیں۔ معلوم ہوا کہ آزادی کی آرام گاہ یہی ہے۔ وہ تحمل کی بیٹی تھی اور قناعت کی گود میں پلی تھی۔ چنانچہ سب سے الگ اس گوشہ عافیت میں پڑی رہتی تھی اور کنج عافیت اس کا نام رکھا تھا۔ یہ مقام علوم و فنون کو بھی گزران کے قابل معلوم ہوا۔ وہاں جاکر دیکھا تو دانائی، دوراندیشی، کفایت شعاری بھی موجود ہیں۔ علوم نے چند روز تک ان کی صحبت کو غنیمت سمجھا اور آزادی کے دامن کے نیچے اپنی عزت اورآسائش کو چھپا کر زندگی بسر کرنے لگے۔اے اہل علم! اب وہی زمانہ ہے۔ عزت و آسائش چاہو تو اس طرح گزارہ کرو۔ کیوں آزاد! مجھے توان لوگوں پر رشک آتا ہے، جو شہرت کی ہوس یا انعاموں کی طمع پر خاک ڈال کر گوشہ عافیت میں بیٹھے ہیں اور سب بلاؤں سے محفوظ ہیں، نہ انعام سے خوش، نہ محرومی سے ناخوش، نہ تعریف کی تمنا، نہ عیب چینی کی پرو۔ اے خدا، دل آزاد دے اور حالت بے نیاز۔حاشیے(۱) بند اور گھٹی ہوئی جگہ میں یہ نباتات بڑھتے ہیں، نہ ان کے پھول کھلتے ہیں، نہ پھل لگتے ہیں۔ سورج کی روشنی اور چلتی ہوئی ہوا کو اس میں بڑا دخل ہے۔ یہ نہ ہو تو سب ٹھٹھر کر رہ جاتے ہیں۔(۲) یہ بے ہودہ بے کمال اور نکتہ چیں معترض ہیں۔ ہنرمندوں کے ہنران کی آنکھوں میں چبھتے ہیں اور خواہ مخواہ عیب لگا کر ان کی تصنیفات کو خراب کرتے ہیں۔(۳) زمانہ کہ ہنر کا دشمن ہے۔ کیسا ہی اندھیر مچادے، مگر خودبخود ایک وقت ایسا آجاتا ہے کہ دودھ کا دودھ پانی کا پانی الگ ہو جاتا ہے۔


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.