غضب کے طیش میں وہ شوخ دیدہ آیا تھا
Appearance
غضب کے طیش میں وہ شوخ دیدہ آیا تھا
بہ شکل قہر تھا خنجر کشیدہ آیا تھا
سلوک حسن تعلق بنے یہ ہنگامہ
کہ ہر طرف سے بریدہ رمیدہ آیا تھا
کیا تھا شوق نے بیتاب دیدہ نے مضطر
وہ ذوق لطف کا لذت چشیدہ آیا تھا
وفا مثال سراپا نیاز با تمکیں
فقیر پائے بہ دامن کشیدہ آیا تھا
ہوا نہ قرب تعلق کا اختصاص یہاں
یہ روشناس ز راہ بعیدہ آیا تھا
دیا نہ ساقیؔ رعنا نے جام کیف مراد
صلائے عام کا شہرا شنیدہ آیا تھا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |