غمزہ نہیں ہوتا کہ اشارا نہیں ہوتا
Appearance
غمزہ نہیں ہوتا کہ اشارا نہیں ہوتا
آنکھ ان سے جو ملتی ہے تو کیا کیا نہیں ہوتا
جلوہ نہ ہو معنی کا تو صورت کا اثر کیا
بلبل گل تصویر کا شیدا نہیں ہوتا
اللہ بچائے مرض عشق سے دل کو
سنتے ہیں کہ یہ عارضہ اچھا نہیں ہوتا
تشبیہ ترے چہرے کو کیا دوں گل تر سے
ہوتا ہے شگفتہ مگر اتنا نہیں ہوتا
میں نزع میں ہوں آئیں تو احسان ہے ان کا
لیکن یہ سمجھ لیں کہ تماشا نہیں ہوتا
ہم آہ بھی کرتے ہیں تو ہو جاتے ہیں بدنام
وہ قتل بھی کرتے ہیں تو چرچا نہیں ہوتا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |