غمزۂ چشم شرمسار کہاں
Appearance
غمزۂ چشم شرمسار کہاں
سر تو حاضر ہے تیغ یار کہاں
گل بھی کرتا ہے چاک اپنا جیب
پر گریباں سا تار تار کہاں
ہو غزالوں کو اس سے ہم چشمی
تیکھی چتون کہاں خمار کہاں
عندلیبوں نے گل کو گھیر لیا
ایک جیوڑا کہاں ہزار کہاں
ایک دن ایک شخص نے پوچھا
میر صاحب تمہارا یار کہاں
میں نے اس سے کہا کہ سن بھائی
اب مجھے اس تلک ہے بار کہاں
گاہ گاہے سلام کرتا ہے
پر وہ باتیں کہاں وہ پیار کہاں
زندگی تک ستم تو سہہ لے سوزؔ
پھر تو یہ ظلم بار بار کہاں
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |