غمگیں نہیں ہوں دہر میں تو شاد بھی نہیں
Appearance
غمگیں نہیں ہوں دہر میں تو شاد بھی نہیں
آباد اگر نہیں ہوں تو برباد بھی نہیں
ملتی تری وفا کی مجھے داد بھی نہیں
مجنوں نہیں ہے دہر میں فرہاد بھی نہیں
کہتا ہے یار جرم کی پاتے ہو تم سزا
انصاف اگر نہیں ہے تو بیداد بھی نہیں
انساں کی قدر کیا ہے جو ہو تیرے روبرو
تیرے مقابلے میں پری زاد بھی نہیں
افسوس کس سے یار کی کھنچوائیے شبیہ
مانیؔ نہیں جہاں میں ہے بہزادؔ بھی نہیں
کرتا ہے عذر جور و جفا یار تو عبث
ہونا جو تھا ہوا وہ ہمیں یاد بھی نہیں
کشتہ ہوا ہوں ابروئے خم دار یار کا
میرے لیے ضرورت جلاد بھی نہیں
حسرت بھرے ہوئے گئے دنیا سے سیکڑوں
تصدیق کس سے کیجئے شداد بھی نہیں
بہرامؔ میرے زور طبیعت سے ہے سخن
شاگرد میں نہیں ہوں تو استاد بھی نہیں
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |