غم اس کو ساری رات سنایا تو کیا ہوا
Appearance
غم اس کو ساری رات سنایا تو کیا ہوا
یا روز اٹھ کے سر کو پھرایا تو کیا ہوا
ان نے تو مجھ کو جھوٹے بھی پوچھا نہ ایک بار
میں نے اسے ہزار جتایا تو کیا ہوا
خواہاں نہیں وہ کیوں ہی میں اپنی طرف سے یوں
دل دے کے اس کے ہاتھ بکا تو کیا ہوا
اب سعی کر سپہر کہ میرے موئے گئے
اس کا مزاج مہر پہ آیا تو کیا ہوا
مت رنجہ کر کسی کو کہ اپنے تو اعتقاد
دل ڈھائے کر جو کعبہ بنایا تو کیا ہوا
میں صید ناتواں بھی تجھے کیا کروں گا یاد
ظالم اک اور تیر لگایا تو کیا ہوا
کیا کیا دعائیں مانگی ہیں خلوت میں شیخ یوں
ظاہر جہاں سے ہاتھ اٹھایا تو کیا ہوا
وہ فکر کر کہ چاک جگر پاوے التیام
ناصح جو تو نے جامہ سلایا تو کیا ہوا
جیتے تو میرؔ ان نے مجھے داغ ہی رکھا
پھر گور پر چراغ جلایا تو کیا ہوا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |