غم دل کا بیان چھوڑ گئے
Appearance
غم دل کا بیان چھوڑ گئے
ہم یہ اپنا نشان چھوڑ گئے
تری دہشت سے باغ میں صیاد
مرغ سب آشیان چھوڑ گئے
راہ میں مجھ کو ہمرہاں میرے
جان کو ناتوان چھوڑ گئے
نفرت آئی سگ و ہما کو کیا
جو مرے استخوان چھوڑ گئے
چلتے چلتے بھی یہ جفا کیشاں
ہاتھ مجھ پر ندان چھوڑ گئے
کسی در پر انہوں کو جا نہ ملی
جو ترا آستان چھوڑ گئے
سفر اس دل سے کر گئے غم و درد
یار سونا مکان چھوڑ گئے
صفحۂ روزگار پر لکھ لکھ
عشق کی داستان چھوڑ گئے
لے گئے سب بدن زمیں میں ہم
مصحفیؔ اک زبان چھوڑ گئے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |