Jump to content

غم رو رو کے کہتا ہوں کچھ اس سے اگر اپنا

From Wikisource
غم رو رو کے کہتا ہوں کچھ اس سے اگر اپنا
by شیخ قلندر بخش جرات
296734غم رو رو کے کہتا ہوں کچھ اس سے اگر اپناشیخ قلندر بخش جرات

غم رو رو کے کہتا ہوں کچھ اس سے اگر اپنا
تو ہنس کے وہ بولے ہے میاں فکر کر اپنا

رونے سے ترے کیا کہیں اے دیدۂ خوں بار
یہ خاک میں ملتا ہے دل اپنا جگر اپنا

گر بیٹھتے ہیں محفل خوباں میں ہم اس بن
سر زانو سے اٹھتا نہیں دو دو پہر اپنا

لانا ہے تو ہمدم اسے لا جلد کہ ہم کو
احوال نظر آئے ہے نوع دگر اپنا

باتوں سے کٹے کس کی بھلا راہ ہماری
غربت کے سوا کوئی نہیں ہم سفر اپنا

عالم میں ہے گھر گھر خوشی و عیش پر اس بن
ماتم کدہ ہم کو نظر آتا ہے گھر اپنا

یا آنکھوں سے اک آن نہ ہوتا تھا وہ اوجھل
یا جلوہ دکھاتا نہیں اب اک نظر اپنا

ہر بات کا بہتر ہے چھپانا ہی کہ یہ بھی
ہے عیب کرے کوئی جو ظاہر ہنر اپنا

گر رو بہ رو اس کے کسی غم خوار کو چپکے
کچھ حال سناتا ہوں میں با چشم تر اپنا

تو کیا کہوں کہتا ہے عجب شکل سے مجھ کو
کچھ ہونٹوں ہی ہونٹوں میں وہ منہ پھیر کر اپنا

کیا کیا اسے دیکھ آتی ہے جرأتؔ ہمیں حسرت
مایوس جو پھر آتا ہے پیغام بر اپنا


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.