غم رو رو کے کہتا ہوں کچھ اس سے اگر اپنا
غم رو رو کے کہتا ہوں کچھ اس سے اگر اپنا
تو ہنس کے وہ بولے ہے میاں فکر کر اپنا
رونے سے ترے کیا کہیں اے دیدۂ خوں بار
یہ خاک میں ملتا ہے دل اپنا جگر اپنا
گر بیٹھتے ہیں محفل خوباں میں ہم اس بن
سر زانو سے اٹھتا نہیں دو دو پہر اپنا
لانا ہے تو ہمدم اسے لا جلد کہ ہم کو
احوال نظر آئے ہے نوع دگر اپنا
باتوں سے کٹے کس کی بھلا راہ ہماری
غربت کے سوا کوئی نہیں ہم سفر اپنا
عالم میں ہے گھر گھر خوشی و عیش پر اس بن
ماتم کدہ ہم کو نظر آتا ہے گھر اپنا
یا آنکھوں سے اک آن نہ ہوتا تھا وہ اوجھل
یا جلوہ دکھاتا نہیں اب اک نظر اپنا
ہر بات کا بہتر ہے چھپانا ہی کہ یہ بھی
ہے عیب کرے کوئی جو ظاہر ہنر اپنا
گر رو بہ رو اس کے کسی غم خوار کو چپکے
کچھ حال سناتا ہوں میں با چشم تر اپنا
تو کیا کہوں کہتا ہے عجب شکل سے مجھ کو
کچھ ہونٹوں ہی ہونٹوں میں وہ منہ پھیر کر اپنا
کیا کیا اسے دیکھ آتی ہے جرأتؔ ہمیں حسرت
مایوس جو پھر آتا ہے پیغام بر اپنا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |