غم فرقت سہا نہیں جاتا
Appearance
غم فرقت سہا نہیں جاتا
روز مر کر جیا نہیں جاتا
خضر سے بھی رہ محبت میں
ساتھ میرے چلا نہیں جاتا
ہو گئی ضعف کی بھی حد دل میں
درد سے بھی اٹھا نہیں جاتا
اب یہ صورت ہے میرے رونے پر
غیر سے بھی ہنسا نہیں جاتا
قبر میں ساتھ ہے تری حسرت
ورنہ تنہا رہا نہیں جاتا
اب تو ہم سے ترے بغیر ملے
خاک میں بھی ملا نہیں جاتا
دل تو جاتا ہے شوق میں تیرے
شوق دل سے ترا نہیں جاتا
کتنا کم ظرف ہے ترا پیکاں
خون دل بھی پیا نہیں جاتا
وہ تو جاتے ہیں دل سے اے غم یار
تو بھی جاتا ہے یا نہیں جاتا
اب تو یہ حال ہے کہ ان سے بھی
حال میرا سنا نہیں جاتا
وہ امنگیں نہیں مگر محمودؔ
تاکنا جھانکنا نہیں جاتا
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |