غم میں عہد شباب جاتا ہے
Appearance
غم میں عہد شباب جاتا ہے
آسماں خاک میں ملاتا ہے
کون گل بہر سیر آتا ہے
باغ پھولا نہیں سماتا ہے
عرش پر بھی غبار جاتا ہے
دل جو وحشت میں خاک اڑاتا ہے
جان دیتا ہے سبزۂ خط پر
خضر ہر روز زہر کھاتا ہے
تیغ قاتل جو ہو گئی بے آب
زخم پانی مگر چراتا ہے
زندے مرتے ہیں مردے جیتے ہیں
جب وہ رشک مسیح گاتا ہے
سحر شام وصل ہے شب گور
موت آتی ہے یار جاتا ہے
اچھی پڑتی ہے جب کوئی تلوار
دہن زخم مسکراتا ہے
خون عشاق کا اٹھا بیڑا
بے سبب کب وہ پان کھاتا ہے
جگر سنگ ہو جہاں پانی
وہ وہاں مجھ کو آزماتا ہے
تو جو گل ہے تو میں بھی شبنم ہوں
مجھے ہنسنا ترا رلاتا ہے
خوش یہ مرنے سے ہوں مرا لاشہ
گور میں بھی نہیں سماتا ہے
لالۂ کوہ سے ہوا ثابت
خون فریاد جوش کھاتا ہے
لاکھ تقلید کیجئے اے عرشؔ
پر کب انداز میرؔ آتا ہے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |