غم یاں تو بکا ہوا کھڑا ہے
Appearance
غم یاں تو بکا ہوا کھڑا ہے
فدوی ہے فدا ہوا کھڑا ہے
ہلتا نہیں تیرے در سے یہ عشق
مدت سے ملا ہوا کھڑا ہے
خونیں کفن شہید الفت
دولہا سا بنا ہوا کھڑا ہے
ٹک گوشۂ چشم ادھر بھی کوئی
کونے سے لگا ہوا کھڑا ہے
دامن کا ہے گھیر گرد جاناں
کیوں جی وہ گھرا ہوا کھڑا ہے
یوں دل کو بغل میں میں نے پالا
یہ مجھ پہ پلا ہوا کھڑا ہے
کیا سمجھے نماز عشق ناصح
قبلہ سے بھرا ہوا کھڑا ہے
مجرے کو تمہارے ابروؤں کے
محراب جھکا ہوا کھڑا ہے
میزان نہیں ملتی میری اس کی
غصہ میں پلا ہوا کھڑا ہے
گھر سے تو نکل کہ در پہ احسانؔ
کیا غم میں گھرا ہوا کھڑا ہے
پلکوں سے گری ہے اشک ٹپ ٹپ
پٹ سے وہ لگا ہوا کھڑا ہے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |